ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
سورہ یوسف کی آیت (فَلَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ حَتّٰی یَأْذَنَ لِیْ اَبِیْ اَوْ یَحْکُمَ اللّٰہُ لِیْ وَھُوَ خَیْرُ الْحٰکِمِیْنَ ) ١ کی تفسیر وہ کی جو سبائی جماعت نے گھڑ رکھی تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ زندہ ہیں یا بادلوں میں ہیں اور اِس آیت کا مطلب یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اَولاد میں سے جو شخص اِمامت کا دعوی کرے ہم اُس کا ساتھ نہ دیں یہاں تک کہ حضرت علی بادلوں میں سے یہ نِدا دیں کہ فلاں کا ساتھ دو۔ ٢ اِمامِ حدیث حضرت مسلم رحمہ اللہ نے اپنی صحیح مسلم کے مقدمہ میں حارث بن حصیرہ ،اَبو داود اعمیٰ وغیرہ کے چند نام لیے ہیں اور فرمایا کہ اِس طرح کے واضعین حدیث اور اُن کے متعلق علمائِ حق کی تنقیدات اگر بیان کی جائیں تو ضخیم کتاب ہوجائے، یہاں چند نام بطورِ مثال پیش کیے ہیں تاکہ اَصحاب ِ فکر و نظر اَصل صورتِ حال کااَندازہ کر سکیں۔( مسلم شریف ج ١ ص ٢٠ ) لیکن وہ حضرات جو درسِ حدیث اور اِفتاء وغیرہ کے لیے اِن مرکزوں میں قطب اِرشاد تھے وہ اِسلام اور دین ِ حق کے مزاج شناس تھے آنحضرت ۖ کی بارگاہ ِاَقدس میں اُن کی جو حاضری رہی تھی اُس نے اُن کی فراست ِاِیمانی کو کسوٹی بنا دیا تھا وہ کھوٹ کو فورًا پہچان لیتے تھے۔ ظاہر ہے اِرشادات ِرسول اللہ ۖ کے اَنوار اِن مخترعات ٣ کو کہاں میسر ہو سکتے تھے بلکہ اُن میں جو اِختراع اور اِفتراء کی تاریکی ہوتی تھی وہ فورًا اِن روشن ضمیر حضرات کے آئینہ وجدان میں نظر آجاتی تھی اور وہ اُن روایتوں کی طرف اِلتفات بھی نہیں کرتے تھے۔ ١ مسلم شریف ج ١ ص ١٥ ٢ یہ حضرت یوسف علیہ السلام کے بڑے بھائی کا قول ہے جب یہ بھائی حضرت یامین کو لے گئے اور حضرت یعقوب سے یہ معاہدہ کر گئے تھے کہ ہم اُن کے محافظ ہوں گے اگرہم سب ہی کہیں گِھر جائیں تو مجبور رہیں گے ور نہ ہم عہد کرتے ہیں کہ اِن کو پوری حفاظت کے ساتھ واپس لائیں گے پھر صورت یہ پیش آئی کہ حضرت یامین بادشاہ کے پیالے کے چوری کے اِلزام میں روک لیے گئے تو بڑے بھائی جو سب کے سر براہ تھے اُنہوں نے باقی بھائیوں سے کہا کہ تم والد صاحب کے پاس جا کر واقعہ بیان کر دو اور اپنے متعلق کہا (لَنْ اَبْرَحَ الْاَرْضَ) یعنی میں تو یہاں سے اُس وقت نہیں ہٹوں گا جب تک والد صاحب اِجازت نہ دے دیں یا اللہ تعالیٰ کا کوئی فیصلہ نہ ہوجائے۔ ٣ گھڑی ہوئی حدیثیں