ماہنامہ انوار مدینہ لاہور اگست 2015 |
اكستان |
|
کہ جس میں نمازیں قرآن شریف نہ پڑھا جاتا ہو اور بچوں بڑوں اور عورتوں کو اِس کی تعلیم نہ دی جاتی ہو ۔'' یہ قرآنِ پاک کی تعلیم و تعلم کا سلسلہ تھا، اَحادیث مبارکہ اُس وقت مرتب ومدوّن نہ تھیں کہ اُن کو بھی مکاتب کے نصاب میں داخل کیا جاتا اَلبتہ روایت ِحدیث کے کچھ ضابطے مقرر فرمادیے اور کچھ حلقے قائم کر دیے جہاں اَکابر صحابہ اَحادیث بیان کرتے مقدمات کا فیصلہ کرتے اور پیش آنے والے واقعات کے متعلق فتوی بھی صادر کیا کرتے تھے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں : ''فاروقِ اعظم علماء صحابہ راباقالیم دارُ الاسلام روان ساخت امر کرد باقامت در شہرھا وبراویت ِحدیث در آنجا ۔'' (اِزالة الخفاء فارسی ج ٢ ص ٢١٥ ) ''فاروقِ اعظم نے علمائِ صحابہ کو دارُالاسلام کے بڑے بڑے شہروں میں روانہ کیا اور وہاں قیام کا اور اُن میں روایت ِ حدیث کا حکم دیا۔'' اِس طرح پوری مملکت میں بہت سے حلقے قائم ہوگئے اُن میں مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور کوفہ مرکزی حیثیت رکھتے تھے جہاں حضرت عبداللہ اِبن مسعود، حضرت عبد اللہ بن عمر، حضرت عبد اللہ بن عباس جیسے حضرات روایت ِ حدیث اور اَفتاء اور قضاء کی خدمات اَنجام دیا کرتے تھے اِن حلقوں کی مرکزیت آج تک تسلیم کی جاتی ہے۔ حفاظت ِ دین ِحق کے اِن مرکزوں کے مقابلہ پر باطل نے بھی پر پھیلائے، وضعِ حدیث کی رفتار تیز ہوگئی باطل پرستوں کی فنکاری کی ایک مثال ملاحظہ فرمائیے، روایت ِحدیث کا ایک مدعی جابربن یزید تھا اُس نے سلام بن مطیع سے کہا : عِنْدِیْ خَمْسُوْنَ اَلْفَ حَدِیْثٍ عَنِ النَّبِیِ ۖ ۔ میرے پاس پچاس ہزار حدیثیں ہیں جو آنحضرت ۖ سے منقول ہیں،حضرت جراح بن ملیح سے بیان کیا کہ میرے پاس آنحضرت ۖ کی ستر ہزار حدیثیں ہیں جو جابر جُعفی کے واسطے سے پہنچی ہیں مگر اِس جابر بن یزید کی شان یہ تھی کہ علماء کا خیال تھا کہ یہ خارجی ہے اِس کی تصدیق اِس سے ہوئی کہ اُس نے