ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
''منافق کی تین (خاص) نشانیاں ہیں: جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے، جب وعدہ کرے تو اُس کے خلاف کرے اور جب اُسے اَمین بنایا جائے تو اُس میں خیانت کرے۔'' رحمة للعالمین حضرت محمد مصطفےٰ ۖنے مذاق میں بھی جھوٹ بولنے کو ممنوع فرمایا بلکہ ایسے شخص کے لیے تین مرتبہ بد دُعا فرمائی فرمایا۔ حدیث شریف میں آتاہے کہ بربادی ہے اُس شخص کے لیے جو لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولے، اُس کے لیے بربادی ہے ،اُس کے لیے بربادی ہے۔(ترمذی، اَبو داود، مسند اَحمد) ٭ تیسرا گناہ یہ ہے کہ اِس دن جھوٹ بولنے اور کذب بیانی کو جائز سمجھا جاتا ہے بلکہ لائق تحسین اور قابلِ فخر سمجھا جاتا ہے حالانکہ فقہائے کرام رحمہم اللہ نے تصریح فرمائی ہے کہ جھوٹ کو اگر گناہ سمجھ کر بولاجائے تو گناہِ کبیرہ ہے اور اگر اِس کو جائز و حلال سمجھ کر بولا جائے تب تو اَندیشہ کفر ہے۔ ٭ چوتھا گناہ اِس میں دھوکہ دینا بھی ہے، اِس کو بھی فقہائے کرام رحمہم اللہ نے گناہِ کبیرہ میں شمار کیا ہے، دھوکہ دینے والے کے متعلق محسن اِنسانیت حضرت محمد مصطفےٰ ۖ نے سخت ناراضگی کے الفاظ فرمائے ہیں، فرمایا: مَنْ غَشَّنَا فَلَیْسَ مِنَّا (مُسلم ) جو شخص ہمیں دھوکہ دے وہ ہم میں سے نہیں۔ ٭ پانچواں گناہ یہ ہے کہ اِس میں خیانت جیسی ممنوع حرکت کا بھی اِرتکاب کیا جاتا ہے جس کو گناہِ کبیرہ میں شمار کیا گیا ہے ۔محسن اِنسانیت حضرت محمد ۖنے اِرشاد فرمایا کہ : کَبُرَتْ خَیَانَةً اَنْ تُحَدِّثَ اَخَاکَ حَدِیْثًا ہُوَ لَکَ بِہ مُصَدِّق وَاَنْتَ بِہ کَاذِب۔(اَبوداود ٢/٣٣٣) ''بڑی خیانت ہے کہ تم اپنے بھائی سے ایسی بات کہو جس میں وہ تمہیں سچا سمجھتا ہو حالانکہ تم اُس سے جھوٹ بول رہے ہو۔'' خیانت کو حدیث پاک میں منافق کی علامت بھی قرار دیاجیسا کہ اُوپر مذکور ہوا۔