ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
قسط : ٣ تعلیم النسائ ( اَز اِفادات : حکیم الامت حضرت مولانا اَشرف علی صاحب تھانوی ) عورتوں کے نصاب کا خاکہ و خلاصہ عورتوں کو تاریخ پڑھانا : اگر کمال حاصل کرنے کے لیے اُن کو تعلیم دی جاتی ہے تو بھلا یہ بھی کوئی کمال ہے کہ فلاں راجہ مرگیا فلاں بادشاہ فلاں سن میں ہوا تھا فلاں جگہ اِتنے دریا ہیں فلاں موقع پر اِتنے گاؤں ہیں کلکتہ ایسا شہر ہے بمبئی میں اِتنی تجارت ہوتی ہے۔ (حقوق الزوجین ص ٣٠٦) عورتوں کی تعلیم کے لیے دینی مسائل سے زیادہ کوئی چیز مفید نہیں۔ اگر تاریخ پڑھائی جائے تو حضور ۖ کی سیرت اور محض بزرگوں کے حالات پڑھانے چاہییں جس کا اَثر اُن کے اَخلاق پر بھی اچھا ہو مگر آج کل اُن کو دُنیا بھر کے قصے پڑھائے جاتے ہیں جس کا بہت ہی برا نتیجہ ہوتا ہے۔ (التبلیغ ) عورتوں کو جغرافیہ پڑھانا : بعض لوگ عورتوں کو جغرافیہ پڑھاتے ہیں میری سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس سے کیا نفع اگر یہ ضرورت بتلائی جائے کہ اُن میں روشن دماغی پیدا ہوگی تو میں جواب میں عرض کرتا ہوں کہ جی ہاں بجا ہے اور یہی مصلحت ہے کہ اگر بھاگنے کا اِرادہ کریں تو کوئی دِقت بھی نہ ہو کیونکہ جغرافیہ سے اُن کو معلوم ہو چکا ہے کہ اِدھر غازی آباد جنکشن ہے اُدھر لکھنؤ ہے یہاں سے دہلی اِتنی دُور ہے اور اُس کا راستہ یہ ہے اور دہلی میں اِتنے سرائے اور اِتنے ہوٹل ہیں جس طرف کو چاہو چلے جاؤ اور جہاں چاہو ٹھہر جاؤ۔ بتلاؤ عورتوں کو جغرافیہ پڑھنے سے بھاگنے میں آسانی ہوگی یا نہیں۔ اِس کے سوا اور کوئی نفع ہو تو میں سننا چاہتا