ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
ہوں گے خیال رکھتے ہوں گے حتی کہ یہ اِتنے بڑے ہوگئے کہ اَعْلَمُہُمْ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ فرمادیا رسول اللہ ۖ نے اِن کی تعریف فرمادی،اِن کو بھیجا تھا آقائے نامدار ۖ نے کہ جائیں وہاں یمن سے وصول کر لائیں جو کچھ بھی اُن پر واجب ہوتا ہے، یہ گئے وہاں سے وصول کر کے لائے وہاں جب پہنچے اور وہاں ٹھہرے تو کچھ لوگوں سے دوستی ہو گئی تعلقات ہوگئے تو اِن کو ویسے ہی اِس طرح کے تحائف مِل گئے اور وہ خالص دوستی جیسے ہوجاتی ہے وہ ہو گئی اُس میں ہی اُنہوں نے(تحائف) دیے ہیں،یہ لے کر سب وصول کر کے آگئے تو آقائے نامدار ۖ نے اِن کو چلتے وقت بتلا دیا تھا کہ شاید تمہاری دوبارہ آگے کو ملاقات میرے سے نہ ہو لَعَلَّکَ اَنْ تَمُرَّ بِمَسْجِدِیْ ھٰذَا وَقَبْرِیْ ١ شاید ایسے ہو کہ میری یہ مسجد اور میری قبر سے تم گزرو، حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو اِس بات کو سن کر بہت رونا آیا تھا لیکن بہرحال وہ وہاں گئے مسلمانوں کے لیے تو یہی حکم تھا کہ جہاں بھیجا جائے وہاں جاؤ ثواب بھی اُس میں زیادہ ہے۔ حکم کی تعمیل کرنے میں ثواب زیادہ ہونے کی وجہ : ایک صحابی تھے اُنہوں نے سو چا کہ میں نماز ایک اور پڑھتا جاؤں اور لشکر باہر تھا تو وہ آگئے نماز پڑھی نماز کے بعد آپ نے دیکھا اور فرمایاکہ تم یہاں کیسے ؟ تم تو لشکر میں جا رہے تھے اُنہوں نے کہا جا تو رہا تھا اور جا بھی رہا ہوں اَب بھی ،سوچا کہ ایک نماز اور جناب کے پیچھے پڑھ لوںتو رسول اللہ ۖ نے اِسے پسند نہیں فرمایا، یہ فرمایا کہ وہاں تمہیں جو اَجر ملتا وہ زیادہ تھا یعنی وہاں تم جا رہے ہو تو وہاں تمہیں یہاں کا اَجر خود ہی ملتا اَب یہاں کامِلا ہے وہاں کا نہیں مِلا، ایک رہ گیا، تو عام نظر جو تھی وہ اور چیز ہے اور خاص نظر اور، تو حکم جب دے دیا جائے کہ جاؤ تووہی اَفضل تھا تو رسول اللہ ۖ کے حکم کی اِطاعت کی جائے اُسی میں فضیلت ہے۔ سرکاری دورہ اور تحائف،حضرت عمر کا اِعتراض : تو یہ(حضرت معاذ یمن )چلے گئے، واپس آئے ہیں تو اَبو بکر رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا جوکچھ وہاں ١ مشکوة شریف کتاب الرقاق رقم الحدیث ٢٧٣١