ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
ایک مشہور حدیث میں ہے کہ جوکوئی اہم کام بسم اللہ سے شروع نہ کیا جائے وہ کام اَدھورا یعنی بغیر برکت کا ہوگا۔ ایک حدیث میں رسول اللہ ۖ نے فرمایا کہ ہر خط کے شروع میں بسم اللہ لکھا کرو۔ (غنیة الطالبین) اِس لیے خطوط کے شروع میں بسم اللہ لکھنا سنت ہے، ٧٨٦ لکھنے سے بسم اللہ لکھنے کی فضیلت حاصل نہ ہوگی۔ لہٰذا اَصل سنت تویہی ہے کہ بسم اللہ لکھی جائے، باقی خطوط کو اِدھر اُدھر جہاں چاہے پھینکنے سے بسم اللہ کی بے اَدبی ہوگی اور لکھنے والا بھی اِس بے اَدبی کے گناہ میں شامل ہوگا اِس لیے مناسب یہ ہے کہ سنت اَدا کرنے کے لیے زبان سے پڑھ لیا جائے لکھا نہ جائے۔ (معارف القرآن) ٧٨٦ لکھنے سے سنت اَدا نہیں ہوگی اَلبتہ اگر لکھ لیا جائے تو بعض حضرات اِسے بسم اللہ کا عدد بتاتے ہیں اِس لیے اِس کی بھی بے حرمتی نہ ہو اِس کا خیال رکھاجائے۔ والسلام (مفتی) اِسماعیل واڑی والا دارُالافتاء جامعہ حسینیہ راندیر چند اور مسائل : مسئلہ : اِمام اَبو حنیفہ کے نزدیک نماز میں سورہ ٔ فاتحہ اور دُوسری سورة کے درمیان بسم اللہ آہستہ پڑھنا بہتر ہے۔ (فتاوی رحیمیہ ج ١ ص ٨٦ ا و ١٨٩) مسئلہ : بہت سے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین اور علمائِ کرام کے نزدیک بسم اللہ قرآنِ کریم کی ایک آیت ہے، کسی سورة کا جز نہیں مگرسورہ ٔ نمل میں جوبسم اللہ الرحمن الرحیم ہے وہ اِسی سورة کا جز ہے اِس لیے علماء کرام نے لکھا ہے کہ بسم اللہ الرحمن الرحیم کا اِحترام بھی اُتنا ہی ضروری ہے جتنا قرآنِ کریم کا اور جس طرح قرآنِ کریم کا بغیر وضوء کے لکھنا اور پکڑنا جائز نہیں اِسی طرح بسم اللہ الرحمن الرحیم کا لکھنا اور جس کاغذ پر بسم اللہ لکھا ہوا اُس کا پکڑنا بغیر وضو کے جائز نہیں ہے۔