ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
اَپریل فول اور اُس کی تاریخی و شرعی حیثیت ( جناب مولانا مرغوب الرحمن صاحب مظاہری ،اِنڈیا ) ء ء ئ اِسلام ایک فطری مذہب ہے اِس نے ہر اُس چیزکا پوراپورا خیال رکھا ہے جس کی ضرورت اِنسانی فطرت کو ہوتی ہے اور ہر اُس شے سے رُکنے اور باز رہنے کی تلقین کی ہے جس سے دینی یا دُنیوی نقصان ہوتا ہو اور دُوسری قوموں کی نقالی کرنے اور اُن کی اَندھی تقلید کرنے سے قطعاً منع کیا ہے۔ آج ہماری قوم پر مغربیت کا ایسا جنون طاری ہے کہ ہر ہر معاملہ میں بے سوچے سمجھے اَغیارکی اَندھی تقلید کو اپنے لیے ذریعہ نجات و معراج سمجھتی ہے حالانکہ محسن اِنسانیت رحمة للعالمین ہمارے آقاء و مولی حضرت محمد ۖنے جگہ جگہ اور قدم قدم پر مکمل رہنمائی فرمائی ہے اور ہمیں کسی طرح بھی تشنہ کام نہیں چھوڑا اور کہیں بھی ایسا موقع نہیں دیا کہ ہم کو رہنمائی و رہبری کے لیے دُوسروں کی طرف دیکھنے کی ضرورت پڑے۔ مغرب کی اَندھی تقلید میں آج ہم نے '' اپریل فول'' کو اپنی تہذیب کا ایک حصہ بنا لیا ہے ہم نے یہ نہیں دیکھا کہ اِس کے پیچھے کیا کیا خرابیاں کار فرما ہیں، بس بے سوچے سمجھے غیر مہذب قوم کی پیروی میں لگ گئے، آئیے اُن خرابیوں سے پردہ اُٹھاتے ہیں اور مؤرخین کی مختلف آراء کا جائزہ لیتے ہیں۔ بعض مصنفین کا کہنا ہے کہ فرانس میں سولہویں صدی عیسوی تک سال کا آغاز جنوری کے بجائے اپریل سے ہوا کرتا تھا اور اِس مہینے کو رُومی لوگ اپنی دیوی وینس (Venus) کی طرف منسوب کرکے مقدس سمجھا کرتے تھے، وینس کا ترجمہ یونانی زبان میں Aphrodite کیا جاتا ہے، شاید اِسی یونانی نام سے مشتق کرکے اپریل مہینے کا نام رکھا گیا (برٹانیکا)۔ بعضوں کا خیال یہ ہے کہ یکم اپریل کو سال کی پہلی تاریخ ہوا کرتی تھی اور اِس کے ساتھ ایک بت پرستانہ تقدس بھی وابستہ تھا اِس لیے لوگ اِس دن کو جشن و مسرت کے طور پر مناتے تھے اور ہنسی مذاق