ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
سے وصولی ہوئی وہ پیش کر دی اور پھر یہ بھی کہہ دیا کہ یہ اُن لوگوں نے مجھے دیا ہے ۔اَبو بکر رضی اللہ عنہ نے توکچھ نہیں فرمایا اُس کو منظور فرمایا لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اِختلاف کیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے وہاں جانا جو تھا آپ کا وہ سرکاری طور پر تھا تو جو کچھ وہاں سے وصول ہوا وہ آپ کا نہیں ہے وہ سب سرکاری ہے وہ سب خزانے میں جمع ہونا چاہیے اِنہوں نے اِختلاف ِ رائے کیا لیکن اَبو بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی رائے سے اِتفاق نہیں کیا اور حضرت معاذ نے دلیل پیش کی کہ رسول اللہ ۖ کو معلوم تھا کہ مجھے مالی ضروریات مجبور کر رہی ہیں زیادہ ہیں میرے ساتھ لگی ہوئی تو ایک مقصد یہ بھی تھا وہاں بھیجنے میں کہ میری اِمداد ہو جائے تو یہ اُنہیں معلوم تھا اِس لیے حضرت صدیقِ اَکبر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی بات کی تائید نہیں کی۔ خواب اور حضرت معاذ کا تقوٰی : حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے پھر خواب دیکھا ایک، جیسے کہ میں کہیں ڈوب رہا ہوں اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے بچایا ہے تو پھر اِس کی تعبیر وہ یہ سمجھے کہ یہ مال غلط ہے، آئے واپس وہ مال دے دیا کہ بیت المال میں جمع کر لیجئے۔ میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اُن کا حال پہلے تو یہ تھا کہ لوٹ مار کرتے تھے حلال و حرام کی بالکل تمیز نہیں تھی اور جو آتے تھے وہ اُسی معاشرہ میں سے آکر مسلمان ہوتے تھے پھر اِتنی تبدیلی آجانی اِتنی تیزی سے کہ اِن میں تقوی آجائے اور تمیز حلال و حرام کی ہوجائے اور رسول اللہ ۖ کا یہ فرماناکہ مشتبہ چیزوں سے بچو جہاں شک پڑ جائے بس بچ جاؤ اُس سے اُس کو چھوڑ دو دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَالَا یُرِیْبُکَ اور مُشْتَبِہَاتْ سے بچو اور فرمایا فَمَنِ اتَّقَی الْمُشْبِہَاتِ ١ جو بچے مُشْبِہَاتْ سے بس اُس نے اپنے آپ کو بچا لیا ورنہ مشتبہ چیزوں میں پڑ کر غلطی میں پڑ جاتا ہے۔ تو اَب اُن کا حال پھر یہ ہوجاتا تھا کہ وہ آئے اور واپس دے دیا مال سارا ،ضرورت بھی تھی مقروض تھے یا دیگر مصارف اُن کے ذمہ تھے جو شرعی تھے واجب تھے کوئی ایسے فضول خرچی کے نہیں تھے لیکن واپس کر دیا۔ ١ بخاری شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٥٢