ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
سفارش و تجویز : پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یہ جو بیت المال میں آنا چاہیے تھا اَب آگیا بیت المال میں اِس میں دینا چاہیے تھا اِنہوں نے دے دیا اَب جناب اِن کو یہ مال واپس کردیں اَب اِنہیں آپ دے دیں ،واپس کرنا نہ ہوا وہ تو دینا ہو گیا کہ اَب اِنہیں بطورِ اِنعام کے جناب یہ مال دے دیں تو پھر سب نے ہی اِس سے اِتفاق کیا کہ یہ بات ٹھیک ہے اَب دینا جو ہوگا یہ بیت المال کی طرف سے ہوگا یہ اَمیر المومنین کا دینا ہوگا اور یہ درست ہوگا تو اِن حضرات میں یہ تقوی آگیا لیکن جس ماحول سے نکل کر آتے تھے وہاں اگر یتیم کا مال ہاتھ لگ جائے کوئی متولی ہوجائے مالِ یتیم کا تو یتیم تو بیچارا کچھ نہیں سمجھ سکتا وہ تو شفقت کا محتاج ہے اور اُسے کچھ تمیز نہیں بچارے کو، اُس کو تربیت کی بھی ضرورت ہے سمجھ ہے ہی نہیں اُس میں ،وہ بچہ ہے تو یہ کرتے تھے کہ جلدی جلدی اُس کے مال کو کسی نہ کسی طرح سے گڑ بڑ کرتے تھے اپنے نام کرالیا اپنا کاروبار چلالیا اُس کے ذریعہ تاکہ بڑے ہونے سے پہلے پہلے یہ ہوجائے۔ قرآنِ پاک میں ( لاَ تَأْکُلُوْھَا اِسْرَافًا وَّبِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا) اور جو کھا رہا ہے مال یتیم کا تو (اِنَّمَا یَأْکُلُوْنَ فِیْ بِطُوْنِھِمْ نَارًا)وہ آگ کھا رہا ہے آقائے نامدار ۖ نے اِن کو بالکل روک دیا اور پوری دیانت داری سکھائی۔ حضرت عمر کا دَور اور یتیم کا مال : حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایسے ہی ہوا ایک یتیم بچہ تھا اُس کا مال تھاتو وہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک تاجر کو دے دیا کہ یہ اِس کا مال ہے اورتم لگا لو تجارت میں، وہ لگائے رکھامال اُس نے، اُس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خیال آیا کہ کیا ہوا اُس کا میں نے تمہیں وہ پیسے دیے تھے فلاں کے، اُنہوں نے کہا کہ میں نے تجارت میں لگایا ہے اور اَب وہ بڑھ کر اِتنے ہو گئے ہیں نفع ہوتا رہا ہے اور اُس حساب سے دیکھا جائے تو اِتنے بن گئے وہ غالبًا دس ہزار بن گئے تو دس ہزار دِرہم اُس زمانے میں یہ اچھی خاصی رقم ہوتی تھی کیونکہ یہ سمجھئے گا کہ یہ دُوسری جنگ جوہوئی ہے اِس سے پہلے اور