ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
کچھ ہوا لیکن پیچھے ہٹنا پھر بند ہو گیا ایک اِنچ بھی پیچھے پھر نہیں ہٹے ۔ تو اِس طرح کی چیزیں جب پیش آتی ہیں اور مسلمان جمتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کامیابی عطا فرما دیتے ہیں تو جہاد تو وہاں روز ہوتا رہتا تھا رسول اللہ ۖ کے غزوات جو شمار کیے گئے ہیں وہ ستائیس تک ہیں جن میں خود رسول اللہ ۖ تشریف لے گئے، باقی ! باقی اور بھی ہیں جن میں آپ نہیں تشریف لے گئے اور یہ فرمایا کہ اگر مجھے اُمت کا خیال نہ ہوتا تومیں خود جایا کرتا ہر جہاد میں اور کسی بھی لشکر میں میں یہاں نہ بیٹھا رہتا مَا قَعَدْتُّ خَلْفَ سَرِیَّةٍ ١ میں خود شامل ہوتا لیکن ایسے ہے کہ جس چیز کو رسول اللہ ۖ ہمیشہ اور پابندی سے کریں تو وہ پھر واجب ہوجاتی ہے تو وجوب کے درجہ سے ہٹانے کے لیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایسا سمجھا جانے لگے اِس لیے رسول اللہ ۖ نے یہ بھی کیا ہے کہ تشریف نہیںلے گئے بلکہ دُوسروں کو بھیجا ہے فلاں جگہ فلاں کو، فلاں جگہ فلاں کو اَمیر بنا کر بھیجا ہے۔ ایک اور دو کا تناسب یا ایک اور دس کا تناسب : تو بھاگ جانااُس زمانے میں بالکل منع تھا پہلے یہ تھا کہ(اِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ عِشْرُوْنَ صَابِرُوْنَ یَغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ) اگر تم میں سے بیس ہوں گے جو جم جائیںوہ دو سو پر غالب آجائیں گے، قرآنِ پاک کی آیت ہے اُس کے بعد جب مسلمانوں کی تعداد بڑھ گئی تو پھر حکم بدل گیا ( اَلْاٰنَ خَفَّفَ اللّٰہُ عَنْکُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْکُمْ ضَعْفًا فَاِنْ یَّکُنْ مِّنْکُمْ مِّائَة صَابِرَة یَّغْلِبُوْا مِائَتَیْنِ)اگر تم میں سو ہیں جو جمنے والے ہیں تو وہ دو سو پر غالب آجائیں گے تو حکم بدل گیا کہ ایک اور دو کا مقابلہ رہ گیا تو ایک اور دو ہوں یا ایک اور دس ہوں اَب تک وہی صورت ہے کہ اگر جم جائیں تو غالب پھر بھی آجاتے ہیں مسلمان تو اللہ تعالیٰ نے یہ(ممانعت کا) حکم جو رکھا ہے کہ میدانِ جہاد میں پیٹھ پھیر کر بھاگنا مگر اِس میں مستثنیٰ دو شکلیں کردیں، ایک یہ کہ وہ اپنے گروہ کے پاس جا رہا ہے اور ایک صورت یہ ہے کہ وہ پلٹ کر حملہ کرنا چاہ رہا ہے وہ کوئی چال چل رہا ہے اِس طرح کی، اُس میں اگر مارا گیا تو پیٹھ کی طرف سے گولی لگی اُس کے ،مارا گیا بظاہر ایسے لیکن وہ اِس میں داخل نہیں ورنہ بہت شدید بات ہے کوئی پیچھے ہٹے پیچھے ہٹنا بالکل منع ہے۔ ١ بخاری شریف کتاب الایمان رقم الحدیث ٣٦