ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
جنگ ِعظیم چودہ کے بعد جو تنخواہیں لوگوں کی ہوتی تھیں وہ چار روپے پانچ روپے اور وہ اِتنے ہوتے تھے کافی اُن کے لیے کہ اُن سے ختم نہیں ہوتے تھے تو بہت سی چیزیں تو فری یا بہت سستی تھوڑے سے پیسوںکی لے آئے وہ چل رہی ہے مہینہ تو اُس زمانے میں دس ہزار دِرہم اگر کسی کے پاس ہوں یعنی دس ہزار روپے ہوجائیں تو یہ اُس کے گزارے کے لیے اورہوشمند ہونے کے دَور تک کے لیے کافی ہوسکتے تھے۔ تو اُنہوں پھر کہا کہ بس یہ واپس دے دو مجھے، واپس لے لیے تو دیانت داری کا دور آگیا اِتنا کہ اِس میں یہ نہیں رہا کہ کھاگئے یا اُڑا گئے یا نقصان دِکھا دیا کوئی غلط چیز ایسی نہیں سب ٹھیک ہوتے چلے گئے۔ آقائے نامدار ۖ نے حدیث شریف میں منع فرمایا کہ یہ مُوْبِقَاتْ میں ہے یہ تو ہلاک کرڈالنے والی چیزوںمیں ہے عاقبت برباد ہوجاتی ہے اِس سے اور قرآنِ پاک میں اَلگ نازل ہوا یہی حکم تو پھر یہ سارے کے سارے سب کے سب دیانت دار ہوگئے اور اَب تک آپ سنتے بھی ہیں اور عمل بھی کرتے ہیں اَب بھی دیانت دار لوگ ایسے ملتے ہیں کہ جویتیم کا مال یااور چیزیں کسی اور کی اَمانت اُس میںخیانت نہیں کرتے ،یتیم کا مال کھالینا یہ تو خدا سے بے خوفی کی بھی بات ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اِس کے اُوپر بھی یہی وقت آجائے اور اِس کے بچے بھی اِسی طرح کسی کے زیر نگرانی چلے جائیں تو اُس کو یہ خوف نہیں آرہا اور وہ کھا رہا ہے یہ غلط کام ہے یہ بے خوفی کی بھی بات ہے اِیمان جب آجائے گا تو آخرت کا خیال ہروقت رہے گا خدا کی طرف ذہن ہر وقت رہے گا برائی سے بچے گا اور عمل کی جس طرح شریعت نے بتائی ہے ویسی کوشش کرتا رہے گا۔ میدانِ جہاد سے فرار : اِرشاد فرمایا کہ ایک بہت بڑا گناہ جو ہے وہ یہ اَلتَّوَلِّیْ یَوْمَ الزَّحْفِکہ جہاد ہو رہاہو پیٹھ پھیر کر بھاگ جائے بہت بڑ اگناہ ہے اور قرآنِ پاک میں بھی اِرشاد فرمایاہے ( مَنْ یُّوَلِّ یَوْمَئِذٍ دُبُرَہ) جو لڑائی کے دِن پشت پھیرے (اِلاَّ مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ) سوائے اِس کے کہ اُس کی نیت یہ ہو کہ میں پلٹ کر پھر آؤں گا لڑوں گا ( اَوْمُتَحَیِّزًا اِلٰی فِئَةٍ) یا وہ جا رہا ہے مقصد یہ ہے کہ وہاں میری جماعت موجود ہے