ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
کیا گیا تھا یا نہیں ؟ اگر ثابت ہوجائے اور کوئی شہادت اِس اَمر پر نہ ہو کہ پہلے اِسلام اور پھر جزیہ کی دعوت دی گئی تھی تو تمام مسلمان فوجیں اُسی وقت سمر قند چھوڑ کر اُس کی حدود سے باہر جا کر کھڑی ہوجائیں اِس کے بعد اِس سنت پر عمل کریں، پہلے اہلِ سمر قند کو اِسلام کی دعوت دیں، اگر منظور ہو تو فبہا، نہ ہو تو پھر جزیہ کا کہیں، اِسے بھی نہ مانیں تب جہاد کریں۔ قاضی صاحب کو پرچہ ملا، اُنہوں نے عدالت طلب کی، مدعیٰ علیہ مسلمانوں کی فوج کے قائد ہیں اور دُنیا کی تاریخ میں شایداِس واقعہ کی نظیر نہ ملے کہ ایک کمانڈر جس نے اپنی نوکِ شمشیر سے اِتنا اہم علاقہ ترکستان کا دارُالخلافہ فتح کیا تھا وہ مدعیٰ علیہ اور ایک معمولی مسلمان کی حیثیت سے حاضر تھا اُس مسجد میں۔ اُس سے پوچھا گیا، اُس نے اِعتراف کیا کہ ہاں مجھ سے یہ غلطی ہوئی کہ میں یلغار میں اور اِسلامی فتوحات کے تسلسل میں اِس اہم شرعی حکم پر عمل نہیں کر سکا اور جب یہ معاملہ ثابت ہو گیا تو قاضی صاحب نے حکم دیا کہ مسلمان اِس شہر سے تخلیہ کریں اِسے خالی کریں، مسلمانوں نے گھر بنا لیے تھے کھیتیاں جوت لی تھیں، بہت سے لوگوں نے اِسے اپنا شہر بنا لیا تھا تو سب کچھ چھوڑ کر دامن جھاڑ کر چلے گئے، باہر جا کر کھڑے ہوگئے جب وہاں کے بت پرستوں نے یا بدھ مذہب کے ماننے والوں نے مشرکوں نے یہ معاملہ دیکھا کہ شریعت کا اِتنا احترام ہے کہ اِن کے دلوں میں، اور عدل و اِنصاف کا اِتنا لحاظ ہے کہ وہ اپنے قائد اور کمانڈر اِن چیف پر بھی اِسے نافذ کرتے ہیں ۔تو اُنہوں نے کہا اَب لڑائی کی ضرورت نہیں ہم خود مسلمان ہوتے ہیں چنانچہ سمر قند سارے کا سارا مسلمان ہو گیا۔ اِس واقعہ کے ذریعہ میں یہ عرض کرنا چاہتا تھا کہ اُس وقت بھی جہاد کی اِس سنت پر عمل کسی وقت چھوٹ جاتا تھا اور اِس کے بعد تو معلوم نہیں تاریخ کا تعین تو مشکل