ماہنامہ انوار مدینہ لاہور مارچ 2014 |
اكستان |
|
پہلی دعوت ہماری یہ ہے کہ تم اِسلام قبول کرلو، اگر تم اِسلام قبول کر لو گے تو ہم یہ زمین تمہارے حوالے کر جائیں گے تم ہمارے بھائی ہوگے پھر ہمیں کوئی حق نہیں ہوگا کہ بستی مٹا کر تمہاری جگہ بیٹھیں، اِس لیے کہ یہ آقاؤں کا تبادلہ نہیں، یہ دین کا اور مسلک کاتبادلہ ہے، یہ اللہ کے ساتھ عہد و پیما کرتے ہو تو تم زیادہ حقدار ہو۔ اگر تمہیں یہ منظور نہیں تو تم جزیہ دینا منظور کرو یا باجگذار ہمارے بن ہوجاؤ، ہم تمہاری حفاظت بھی کریں گے اور تمہیں اپنے حال پر باقی رکھیں گے۔ اگر یہ بھی منظور نہیں تو پھر لڑنے کے لیے تیار ہوجاؤ۔ جہاد کی یہ تین شرطیں تھیں اور یہ بات اِتنی مشہور ہوگئی تھی کہ فتوح البُلدان بلا ذری میں آتا ہے کہ جب سمر قند فتح ہوا تووہاں کے لوگوں کو کسی طرح پتہ چل گیا کہ اَصل ترتیب اِسلام میں یہ ہے کہ سب سے پہلے اِسلام کی دعوت دی جائے پھر اِس کے بعد جزیہ کی پیشکش کی جائے، اگر وہ بھی منظور نہ ہو تو پھر قتال ہے۔ تو اُنہوں نے دیکھا کہ سمر قند میں فوجیں داخل ہوگئیں بغیر دعوات ِ اِسلام دیے اور بغیر جزیہ کا مطالبہ کیے تو اُن کو ایک عرصہ کے بعد ہوش آیا جبکہ مسلمان وہاں بس گئے تھے، وہاں گھر بنا لیے تھے تو اُنہوں نے ایک وفد روانہ کیا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں جنہیں خلفائے راشدین میں شامل کیا جائے، وہ جنہیں خلیفۂ خامس کہتے ہیں ،اُن کو معلوم ہوا کہ وہ خلفائے عادل ہیں اور شریعت پر پورا عمل کرتے ہیں تو ایک وفد اُن کے پاس حاضر ہوا اور اُن سے شکایت کی کہ سمر قند بغیر اِس سنت کے اور بغیرایک حکم ِ شرعی پر عمل کیے فتح ہو گیا ہے۔ اُنہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے ایک پرچہ لکھا وہاں قاضی کے نام کہ جس وقت تمہیں یہ پرچہ ملے تو اُسی وقت عدالت کر واور وہاں اِس بات پر شہادت لو کہ جس وقت مسلمانوں کے قائد، فوج کے قائد نے سمر قند فتح کیا، کیا اُس وقت اِس سنت پر عمل