(کتاب الحوالة)
(٣٩٤) قال وہ جائزة بالدیون ١ قال علیہ الصلاة والسلام من أحیل علی ملیء فلیتبع٢ ولأنہ التزم ما یقدر علی تسلیمہ فتصح کالکفالة ٣ ونما اختصت بالدیون لأنہا تنبٔ عن النقل
( کتاب الحوالة )
ضروری نوٹ : حوالہ کا مطلب یہ ہے کہ دین اصل مقروض سے کفیل کی طرف چلا جائے اور اب صرف کفیل ذمہ دار ہو۔چونکہ اس میں قرض دوسرے کی طرف حوالہ ہو گیا اس لئے اس کو ٫حوالہ ،کہتے ہیں۔حوالہ کا ثبوت اس حدیث میں ہے۔عن ابن عمر عن النبی ۖ قال مطل الغنی ظلم واذا احلت علی ملی فاتبعہ ولا تبع بیعتین فی بیعة ۔ (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی مطل الغنی ظلم ،ص٣١٧، نمبر١٣٠٩ ابن ماجہ شریف ،باب الحوالة ص ٣٤٤ نمبر ٢٤٠٤ بخاری شریف ، باب الحوالة وھل یرجع فی الحوالة ،ص٣٦٥، نمبر ٢٢٨٧) اس میں حوالہ کرنے کا ذکر ہے۔اور یہ بھی ہے کہ کسی مالدار کی طرف حوالہ کیا تو اس کا پیچھا کرنا چاہئے
اس باب میں چار الفاظ استعمال ہوتے ہیں اس کی تفصیل یہ ہے(١) جو آدمی قرض کا ذمہ دار یعنی کفیل بنے کہ اب میں قرض ادا کروں گا اس کو 'محتال علیہ 'کہتے ہیں (٢) اور جس آدمی پر قرض تھا مدیون یعنی مکفول عنہ اس کو' محیل 'کہتے ہیں (٣) اور جس کا قرض تھا یعنی مکفول لہ اس کو 'محتال لہ' یا ' محتال' کہتے ہیں (٤) اور جس مال کا ضامن بنا یعنی مکفول بہ اس کو 'محتال بہ' کہتے ہیں۔
ترجمہ ؛( ٣٩٤)حوالہ جائز ہے دین کا۔
ترجمہ : ١ حضور ۖ نے فرمایا کہ اگر مال والے پر حوالہ کیا گیا ہے تو اس سے وصول کرنے کے لئے اس کا پیچھا کیا جائے ۔
تشریح : جو قرض صحیح کسی آدمی پر ہو اس کا حوالہ کسی آدمی پر کرے تو جائز ہے۔
وجہ :(١) محتال علیہ یعنی کفیل کا اپنا مال ہے اس لئے وہ کسی کو بھی دے سکتا ہے (٢) صاحب ہدایہ کی حدیث یہ ہے ۔عن ابن عمر عن النبی ۖ قال مطل الغنی ظلم واذا احلت علی ملی فاتبعہ ولا تبع بیعتین فی بیعة ۔ (ترمذی شریف ، باب ماجاء فی مطل الغنی ظلم ،ص٣١٧، نمبر١٣٠٩ )کسی مالدار پر حوالہ کیا جائے تو اس کا پیچھا کرنا چاہئے (٣) خود حضرت ابو قتادہ نے اپنے اوپر میت کا حوالہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ فقال ابو قتادة صل علیہ یا رسول اللہ وعلی دینہ فصلی علیہ(بخاری شریف ، باب اذا احال دین المیت علی رجل جاز ص ٣٠٥ نمبر ٢٢٨٩) اسلئے ان احادیث کی وجہ سے حوالہ جائز ہے
ترجمہ : ٢ اس لئے کہ ایسی چیز کو لازم کیا جسکو سپرد کرنے پر قادر ہے ،اس لئے کفالہ کی طرح حوالہ بھی صحیح ہے ۔