{باب کتاب القاضي إلی القاضي }
(۴۲۸) قال ویقبل کتاب القاضي إلی القاضي في الحقوق إذا شہد بہ عندہ ۱؎ للحاجۃ علی ما نبین(۴۲۹) فإن شہدوا علی خصم حاضر حکم بالشہادۃ[ لوجود الحجۃ ]وکتب بحکمہ ۱؎
(کتاب ا لقاضی الی القاضی)
ترجمہ : (٤٢٨)ایک قاضی کا خط دوسرے قاضی کے نام حقوق میں مقبول ہے جب خط کی گواہی اس کے سامنے دے۔
ترجمہ : ١ اس کی ضرورت کی وجہ سے جسکو ہم بعد میں بیان کریں گے۔
تشریح : حدود اور قصاص کے علاوہ جتنے حقوق ہیں ان میں ایک قاضی دوسرے قاضی کی طرف خط لکھے اور مکتوب الیہ قاضی کے سامنے گواہی دے کہ واقعی یہ خط فلاں قاضی کا ہے تو وہ خط مقبول ہے۔اور جس قاضی کی طرف یہ خط لکھا ہے اس کو اختیار ہے کہ اس خط کے مطابق عمل کرے۔
وجہ :(١)کتاب القاضی الی القاضی کی دلیل کے لئے یہ آیت ہے۔ اذھب بکتابی ھذا فالقیہ الیھم ثم تول عنھم فانظر ماذا یرجعون ۔ قالت یا آیھا الملؤ انی القی الی کتاب کریم انہ من سلیمٰن و انہ بسم اللہ الرحمن الرحمن ( آیت ٢٨، ۔٣٠،سورت النمل ، ٢٧) اس آیت میں خط بھیجنے کا بھی ثبوت ہے اور کس طرح بھیجے اس کا بھی ثبوت ہے ۔ (٢) اس حدیث میں بھی ثبوت ہے۔ ان عبد اللہ بن سہل ومحیصة خرجا الی خیبر ... فکتب رسول اللہ ۖ الیھم بہ فکتب ماقتلناہ (بخاری شریف، باب کتاب الحاکم الی عمالہ والقاضی الی امناء ہ ،ص ١٢٣٩، نمبر ٧١٩٢) اس حدیث میں حضورۖ نے حضرت عبد اللہ بن سہل کے قتل پر یہود کو خط لکھا ہے جس سے معلوم ہوا کہ حاکم اپنے عمال کو خط لکھ سکتا ہے (٣) اس قول صحابی میں ہے ۔ وقد کتب عمر الی عاملہ فی الحدود و کتب عمر ابن عبد العزیز فی سن کسرت ،وقال ابراھیم کتاب القاضی الی القاضی جائز اذا عرف الکتاب والخاتم وکان الشعبی یجیز الکتاب المختوم بما فیہ من القاضی (بخاری شریف، باب الشہادة علی الخط المختوم وما یجوز من ذلک وما یضیق علیہ،وکتاب الحاکم الی عمالہ والقاضی الی القاضی، ص١٢٣٢، نمبر ٧١٦٢) اس اثر سے معلوم ہوا کہ اگر مکتوب الیہ قاضی کاتب قاضی کا خط اور مہر پہچانتا ہو تو وہ جائز ہے اور اس پر عمل کرنا جائز ہے۔
ترجمہ : (٤٢٩)پس اگر گواہی دی مدعی علیہ کے سامنے تو گواہی پر حکم لگادے اور اپنا فیصلہ بھی لکھے۔
ترجمہ : ١ اس کا نام سجل ہے ۔