{کتاب الوکالۃ}
(۵۹۴)قال کل عقد جاز أن یعقدہ الإنسان بنفسہ جاز أن یوکل بہ غیرہ۱؎ لأن الإنسان قد یعجز عن المباشرۃ بنفسہ علی اعتبار بعض الأحوال فیحتاج إلی أن یوکل غیرہ فیکون بسبیل منہ دفعا للحاجۃ۔ ۲؎ وقد صح أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم وکل بالشراء حکیم بن حزام وبالتزویج عمر
( کتاب الوکالة )
ضروری نوٹ: وکالت کے معنی سپرد کرنا، خود کوئی کام نہ کرے اور دوسرے کو کام کرنے کا وکیل بنائے اس کو وکالت کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت اس آیت میں ہے۔بابعثوا احدکم بورقکم ھذہ الی المدینة فلینظر ایھا ازکی طعاما فلیأتکم برزق منہ (آیت ١٩ سورة الکہف ١٨) اس آیت میں اصحاب کہف کے ساتھیوں نے کھانا خریدنے کا وکیل بنایا ہے (٢) حدیث میں ہے۔عن علی قال امرنی رسول اللہ ۖ ان اتصدق بجلال البدن التی نحرت وبجلودھا (بخاری شریف ، باب وکالة الشریک الشریک فی القسمة وغیرھا ص ٣٦٨ نمبر ٢٢٩٩) اس حدیث میں اونٹ ذبح کرنے اور اس کی کھال کو صدقہ کرنے کا وکیل حضرت علی کو آپۖ نے بنایا۔
ترجمہ : (٥٩٤) ہر وہ عقد جو انسان خود کر سکتا ہو،جائز ہے کہ اس کا دوسرے کو بھی وکیل بنائے۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ انسان بعض حالتوں میں خود کرنے سے عاجز ہوتا ہے اس لئے دوسرے کو وکیل بنانے کی ضرورت پڑتی ہے تاکہ ضرورت پوری کرنے کا کوئی راستہ نکل سکے۔
تشریح : جو کام خود کر سکتا ہے اس کام کے کرنے کا دوسروں کو بھی وکیل بنا سکتا ہے۔
وجہ (١) اوپر کی حدیث میں حضورۖ نے حضرت علی کو اونٹ ذبح کرنے اور کھال صدقہ کرنے کا وکیل بنایا۔اور یہ کام حضورۖ خود بھی کر سکتے تھے(٢) بعض مرتبہ آدمی خود ایک کام نہیں کر سکتا ہے تو مجبوری ہوتی ہے کہ دوسروں سے وہ کام کروائے (٣) اوپر کی آیت میں بھی کہف کے ساتھیوں نے دوسرے کو کھانا خریدنے کا وکیل بنایا ہے۔
ترجمہ : ٢ صحیح حدیث میں ہے کہ حضور ۖ نے حضرت حکیم بن حزام کو قربانی خریدنے کا وکیل بنایا ، اور عمر بن سلمة کو اس کی ماں نے نکاح کا وکیل بنایا۔
تشریح : صاحب ہدایہ کی پہلی حدیث یہ ہے ۔عن حکیم بن حزام ان رسول اللہ ۖبعث معہ بدینار یشتری لہ أضحیة فاشتراھا بدینار و باعھا بدینارین فرجع فاشتری لہ أضحیة بدینار و جاء بدینار الی