{باب من یقبل شہادتہ ومن لا یقبل }
(۵۰۹)قال ولا تقبل شہادۃ الأعمی۔ ۱؎ وقال زفر رحمہ اللہ وہو روایۃ عن أبي حنیفۃ رحمہ اللہ
( باب من یقبل شہادتہ ومن لا یقبل)
ترجمہ : (٥٠٩)اور اندھے کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔
تشریح : شہادت شاہد سے مشتق ہے یعنی دیکھ کر گواہی دینا اس لئے جن باتوں میں دیکھ کر گواہی دینا ہوتا ہے اس میں نابینا کی گواہی مقبول نہیں ہے۔ البتہ جن باتوں میں صرف سن کر گواہی دینا ہوتا ہے ان میں امام ابو یوسف کی رائے یہ ہے کہ نابینا کی گواہی مقبول ہے۔
وجہ : (١) اس قول صحابی میں ہے۔ حدثنا الاسود بن قیس العنزی سمع قومہ یقولون،ان علیا رد شھادة اعمی فی سرقة لم یجزھا (سنن للبیہقی، باب وجوہ العلم بالشھادة ،ج عاشر، ص ٢٦٦، نمبر ٢٠٥٨٦ مصنف عبد الرزاق، باب شھادة الاعمی، ج ثامن ، ص٢٥٠، نمبر١٥٤٥٩) اس قول تابعی سے معلوم ہوا کہ نابینا کی گواہی مقبول نہیں ہے(٣) حدیث میں ہے کہ سورج کی طرح روشن ہو جائے تب گواہی دو اور نابینا دیکھ نہیں سکتا اس لئے اس کے سامنے سورج کی طرح روشن نہیں ہوگا۔ اس لئے وہ گواہی بھی نہیں دے سکتا۔ حدیث یہ ہے۔ عن ابن عباس قال ذکر عند رسول اللہ ۖ الرجل یشھد بشھادة فقال: اما انت یا ابن عباس! فلا تشھد الا علی امر یضیٔ لک کضیاء ھذہ الشمس وأومی رسول اللہ ۖ بیدہ الی الشمس (سنن للبیہقی، باب التحفظ فی الشھادة والعلم بھا،ج عاشر ، ص ٢٦٣، نمبر ٢٠٥٧٩) اور نابینا کے سامنے سورج کی روشنی کی طرح واضح نہیں ہوگا اس لئے وہ گواہی نہیں دے سکتا۔
ترجمہ: ١ امام زفر نے فرمایا اور امام ابو حنیفہ کی بھی ایک روایت ہے جن پانچ چیزوں میں سنکر گواہی دینا جائز ہے اس میں قبول کی جائے گی ، اس لئے کہ اس میں سننے کی ضرورت ہے اور اس کے سننے میں کوئی خلل نہیں ہے ۔
وجہ : وقال الشعبی تجوز شھادتہ]اعمی[ اذا کان عاقلا، وقال الزھری ارأیت ابن عباس لو شھد علی شھادة اکنت تردہ؟ (بخاری شریف، باب شھادة الاعمی ونکاحہ وامرہ وانکاحہ ومبایعتہ وقبولہ فی التاذین وغیرہ وما یعرف بالاصوات،ص ٣٦٣،نمبر ٢٦٥٥ مصنف عبد الرزاق ، باب شھادة الاعمی، ج ثامن ، ص ٢٥٠، نمبر١٥٤٥٣) اس قول تابعی سے معلوم ہوا کہ نابینا کی گواہی جائز ہے۔(٢) عن قتادة قال تجوز شہادة الاعمی فی الحقوق۔ ( مصنف عبد الرزاق ، باب شھادة الاعمی، ج ثامن ، ص ٢٥٠، نمبر١٥٤٥٤) اس قول تابعی سے معلوم ہوا کہ نابینا کی گواہی جائز ہے۔