{باب الوکالۃ بالخصومۃ والقبض }
(۶۶۱)قال الوکیل بالخصومۃ وکیل بالقبض عندنا۱؎ خلافا لزفر۔ ہو یقول إنہ رضي بخصومتہ والقبض غیر الخصومۃ ولم یرض بہ۔۲؎ ولنا أن من ملک شیئا ملک إتمامہ وإتمام الخصومۃ وانتہاؤہا بالقبض ۳؎ والفتوی الیوم علی قول زفر رحمہ اللہ لظہور الخیانۃ في الوکلاء وقد
(باب الوکالة بالخصومة و القبض )
ترجمہ: (٦٦١)مقدمے کا وکیل قبضہ کا بھی وکیل ہے امام ابو حنیفہ ،امام ابو یوسف اور امام محمدکے نزدیک۔
اصول: یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ کسی چیز کا وکیل بنا ئیں تو اس کے پورے لوازم کے ساتھ وکیل بنے گا۔
تشریح :کسی کو مقدمہ اور خصومت کا وکیل بنایا تو فیصلے کے بعد دین اور چیز پر قبضہ بھی کر سکتا ہے۔
وجہ : کسی چیزکا وکیل بنایا تو اس کے پورے لوازمات کے ساتھ وکیل ہوگا۔اور خصومت کے لوازمات میں سے قبضہ کرنا بھی ہے۔اس لئے قبضہ کرنے کا وکیل ہوگا۔
ترجمہ : ١ خلاف امام زفر کے ، وہ فرماتے ہیں کہ موکل مقدمہ کرنے پر راضی ہوا ہے قبضہ کرنے پر راضی نہیں ہوا ہے ، کیونکہ قبضہ مقدمہ کے علاوہ کی چیز ہے ۔
تشریح : امام زفر فرماتے ہیں کہ خصومت کا وکیل امانت دار نہیں ہوتا اس لئے اگر اس کو دین پر قبضہ کرنے کی گنجائش دیں تو پھر وہ دین موکل کو واپس ہی نہیں دے گا۔اسلئے خصومت کا وکیل قبضہ کا وکیل نہیں ہوگا۔اور خیانت عامہ کی وجہ سے آج کل اسی پر فتوی ہے۔
ترجمہ : ٢ ہماری دلیل یہ ہے کہ جس نے کسی چیز کا مالک بنایا تو اس کو مکمل کرنے کا مالک ہوگا ، اور مقدمہ مکمل ہوتا ہے قبضہ پر اس لئے وکیل قبضے کا بھی مالک ہوگا ۔
تشریح : ہماری دلیل یہ ہے کہ مقدمہ جب مکمل ہوگا کہ چیز پر قبضہ بھی کر لیا جائے ، اس لئے جب مقدمہ کا وکیل بنایا تو اس کی تکمیل کا بھی وکیل بنایا اس لئے مقدمہ کے وکیل کو چاہے قبضے کا وکیل نہیں بنایا پھر بھی وہ قبضہ کا بھی وکیل بنے گا ۔
ترجمہ : ٣ لیکن فتوی اس زمانے میں امام زفر کے قول پر ہے اس لئے کہ وکیلوں میں خیانت عام ہے ، اور صورت حال یہ ہے کہ موکل نے مقدمے پر اعتماد کیا ہے مال پر اعتماد نہیں کیا ہے ۔
تشریح : واضح ہے۔