Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

93 - 515
(باب کفالة العبد وعنہ) 
(٣٨٩)ومن ضمن عن عبد مالا لا یجب علیہ حتی یعتق ولم یسم حالا ولا غیرہ فہو حال١  لأن المال حال علیہ لوجود السبب وقبول الذمة لا أنہ لا یطالب لعسرتہ ذ جمیع ما ف یدہ ملک المولی ولم یرض بتعلقہ بہ والکفیل غیر معسر فصار کما ذا کفل عن غائب أو مفلس

(باب کفالة العبد و عنہ )
(غلام کفیل بن جائے ، یا غلام کا کوئی کفیل بنے اس کا باب)
ضروری نوٹ  : چونکہ غلام کے پاس مال نہیں ہے اس لئے وہ کسی کا کفیل نہیں بن سکتا ۔(١) اس کے لئے قول صحابی یہ ہے ۔عن جابر عن عامر قال لا کفالة للعبد ۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب فی العبد یکفل ، ج رابع ، ص ٥٣٤، نمبر ٢٢٨٧٧) اس قول صحابی میں ہے کہ غلام کے لئے کفالہ نہیں ہے ۔(٢)عن ابی لیلة فی کفالة العبد لیست بشیء ، لیست  من التجارة ۔( مصنف عبد الرزاق، باب کفالة العبد ، ج ثامن ، ص ١٣٥، نمبر ١٤٨٥١) اس قول تابعی میں ہے کہ غلام کفیل بنے تو اس کا اعتبار نہیں ہے۔ 
ترجمہ :  ( ٣٨٩)کوی غلام کے ایسے مال کا کفیل بنا جو اس پر آزاد ہونے کے بعد لازم ہوتا تھا ، اور کفیل ابھی دینے کا یا بعد میں دینے کی قید نہیں لگائی تو کفیل کو ابھی دینا پڑے گا ۔ 
ترجمہ  : ١  اس لئے کہ اس لئے کہ غلام پر تو مال فی الحال ہی لازم تھا ، کیونکہ مال واجب ہونے کا سبب پایا گیا ، اور کفیل نے ذمہ کو قبول کیا ، یہ اور بات ہے کہ غلام کی تنگدستی کی وجہ سے اس سے ابھی مطالبہ نہیں کیا جائے گا ، اس لئے کہ جو کچھ اس کے ہاتھ میں ہے وہ سب آقا کا ہے اور فی الحال غلام کے ساتھ قرضہ متعلق ہوجائے اس پر آقا راضی نہیں ہے ] اس لئے غلام سے بعد میں مطالبہ کیا جائے گا[ اور کفیل تنگدست نہیں ہے ]اس لئے اس سے ابھی لیا جائے گا [ ، جیسا کہ غائب آدمی کا کفیل بنے ، یا مفلس کا کفیل بنے ۔
اصول  : یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ اصیل پر حقیقت میں ابھی رقم لازم تھی لیکن رقم کے نہ ہونے کی مجبوری سے مؤخر کیا گیا تو اس کے کفیل پر یہ مجبوری نہیں ہے اس لئے اس پر ابھی ہی لازم ہوگی ۔
تشریح  : یہ بات یاد رہے کہ غلام کے ہاتھ میں جو کچھ ہے وہ اس کے آقا کی ملکیت ہے اس لئے اس پر جو بھی قرض ہوگا وہ اپنے آزاد ہونے کے بعد ادا کرے گا ، اب مثلا آقا کی اجازت کے بغیر شادی کی اور وطی بھی کرلی ، بعد میں آقا نے نکاح کی 

Flag Counter