لأنہ لا یقدر علی الاستخراج والأب بمنزلۃ الوصي في أصح الروایتین لعجزہ عن الاستخراج۔
{ باب التحکیم}
(۴۴۶)وإذا حکم رجلان رجلا فحکم بینہما ورضیا بحکمہ جاز۱؎ لأن لہما ولایۃ علی أنفسہما
کہ قرض لینے والے سے واپس لینے میں وہ بھی عاجز ہے ۔
تشریح : یتیم بچے کے لئے جو وصی متعین کیا گیا ہے ، یا باپ کے پاس چھوٹے بچے کا مال ہے تو وہ دونوں اس کے مال کو قرض پر نہ دیں ، کیونکہ وہ وصول نہیں کر پائیں گے ، اور قاضی کے پاس جاکر فیصلہ کرواتے کرواتے مشکل ہوجائے گا ، اس لئے ان کو قرض پر دینے کی اجازت نہیں ہے ۔اور اگر دے دیا اور قرض لینے والے نے واپس نہیں کیا تو باپ، اور وصی کو ضمان دینا ہوگا
( حکم : پنچ بنانے کا بیان )
ضروری نوٹ : حکم کو اردو میں٫ پنچ ، کہتے ہیں ٫فیصل ،کہتے ہیں ، اور پشتو میں٫ جرگہ ، کہتے ہیں ۔
حکم بنانے اور قاضی بنانے میں فرق یہ ہے کہ قاضی بادشاہ، اور امیر کی جانب سے بنتا ہے ۔ اور اس کا فیصلہ اس کی حدود میں ہر ایک پر نافذ ہوتا ہے ۔ اور تحکیم:حکم بنان نا جسکو فیصل بنانا کہتے ہیں ، یہ مدعی اور مدعی علیہ کے بنانے سے بنتا ہے ، اور اس کا فیصلہ انہیں دونوں پر نافذ ہوتا ہے ، دوسروں پر نہیں ۔ ، اگر مدعی یا مدعی علیہ حکم کو ساقط کردے تو اب یہ فیصلہ نہیں دے سکتا ۔پھر دوسری بات یہ ہے کہ حکم کا فیصلہ قاضی چاہے تو رد کردے ، اور مناسب ہوتو نافذ کردے ۔ اس کا ثبوت اس آیت میں ہے ۔ و ان خفتم شقاق بینھما فابعثوا حکما من اہلہ و حکما من اہلھا (آیت ٣٥، سورت النساء ٤) اس آیت میں ہے کہ میاں بیوی میں اختلاف ہو تو دونوں جانب سے فیصل مقرر کرے ۔
ترجمہ : (٤٤٦) اگر دو آدمیوں نے ایک آدمی کو پنچ بنایا تاکہ دونوں کے درمیان فیصلہ کرے اور دونوں اس کے فیصلے پر راضی ہوں تو جائز ہے ]جبکہ وہ حاکم کی صفت پر ہو۔[
ترجمہ : ١ اس لئے کہ مدعی اور مدعی مدعی علیہ کو اپنی ذات پر ولایت ہے اس لئے دونوں کو فیصل بنانے کا بھی حق ہے ، اور فیصل کا فیصلہ دونوں پر نافذ ہوگا۔
تشریح : مدعی اور مدعی علیہ دونوں نے قاضی کے بجائے کسی آدمی کو درمیان میں حکم اور فیصل چن لئے ، تو وہ جو فیصلہ کردے اس کو مان لینا چاہئے۔