Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

335 - 515
{فصل في الشہادۃ علی الإرث }
 (۵۵۶)ومن أقام بینۃ علی دار أنہا کانت لأبیہ أعارہا أو أودعہا الذي ہي في یدہ فإنہ یأخذہا ولا یکلف البینۃ أنہ مات وترکہا میراثا لہ ۱؎ وأصلہ أنہ متی ثبت ملک المورث لا یقضي بہ للوارث حتی یشہد الشہود أنہ مات وترکہا میراثا لہ عند أبي حنیفۃ ومحمد رحمہما اللہ 

(فصل فی الشہادة علی الارث)
ترجمہ  :( ٥٥٦) کسی نے اس بات پر گواہ پیش کیا کہ یہ گھر اس کے باپ کا تھا جسکو عاریت پر ، یا امانت پراس کے قبضے والے کو دیا تھا تو وہ آدمی اس گھر کو لے لے گا ، اور اس بات گواہی پیش کرنے کی تکلیف نہیں دی جائے گی اس کا باپ مرا اور یہ گھر اس کے لئے میراث میں چھوڑا ۔ 
ترجمہ  : ١  اس کی اصل یہ ہے کہ جب مرنے والے کی ملکیت ثابت ہوجائے تو ابھی وارث کے لئے ملکیت کا فیصلہ نہیں کیا جائے گا ، جب تک کہ یہ گواہ پیش نہ کرے کہ کہ وہ مرا اور یہ چیز میرے لئے میراث چھوڑ کر گیا امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کے نزدیک ۔ 
اصول  : امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کا اصول یہ ہے کہ دو طرح کی گواہی پیش کرنی ہوگی ]١[ ایک یہ چیز میت کی ملکیت ہے ۔ ]٢[ دوسری گواہی یہ کہ یہ چیز میرے لئے میراث چھوڑی ہے تب آدمی وارث ہوگا ۔ 
اور امام ابو یوسف  کا اصول یہ ہے کہ ایک گواہی کافی ہے کہ میت کی ملکیت ثابت کردے تو وارث کی وراثت خود بخود ثابت ہوجائیگی 
تشریح : کسی نے یہ گواہی پیش کی یہ گھر فلاں کے پاس میرے والد نے عاریت کے طور پر یا امانت کے طور پر چھوڑ کر گیا ہے ، اور یہ گھر اسکی ملکیت ہے ، تو امام ابو حنیفہ  کے نزدیک اور امام محمد  کے نزدیک اسکے بعد یہ گواہی بھی پیش کرنی ہوگی کہ یہ میرے لئے وراثت چھوڑی ہے ۔لیکن اگر دوسری گواہی پیش نہ کی تب بھی وراث کو گھر مل جائے گا ، اور دوسری گواہی پیش کرنے پر مجبور نہیں کیا جائیگا  
وجہ  : وہ فرماتے ہیں کہ وارث کی ملکیت میں جانا گویا کہ نئے آدمی کی طرف ملکیت کا منتقل ہونا ہے ، اس لئے وارث کو بھی دوسری گواہی دینی ہوگی کہ یہ گھر میرے لئے وراثت کے طور پر چھوڑی ہے ، لیکن عقلی طور پر یہ بات واضح ہے کہ میت کا مال وارث ہی کی ملکیت ہے اس لئے دوسری گواہی دینے کے لئے مجبور نہیں کیا جائے گا ۔     

Flag Counter