Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

89 - 515
(٣٨٣) ون شاء رجع بالجمیع علی المکفول عنہ١   لأنہ کفل بجمیع المال عنہ بأمرہ. (٣٨٤)قال وذا أبرأ رب المال أحدہما أخذ الآخر بالجمیع ١  لأن براء الکفیل لا یوجب براء ة الأصیل فبق المال کلہ علی الأصیل والآخر کفیل عنہ بکلہ علی ما بیناہ ولہذا یأخذہ بہ.(٣٨٥) قال وذا افترق المتفاوضان فلأصحاب الدیون أن یأخذوا أیہما شاء وا بجمیع الدین ١  لأن کل واحد منہما کفیل عن صاحبہ علی ما عرف ف الشرکة(٣٨٦) ولا یرجع أحدہما 

ترجمہ  : (٣٨٣)  اور اگر چاہے توتمام رقم اصیل ] مکفول عنہ[ سے وصول کرے ۔ 
ترجمہ  : ١  اس لئے کہ اصیل کے حکم سے تمام مال کا کفیل بنا ہے ۔
تشریح  : چونکہ اصل مقروض کے حکم سے پورے قرض کا کفیل بنا ہے اس لئے قرض ادا کرنے والے کفیل کو یہ بھی حق ہے کہ سارا مال مکفول عنہ]اصل قرض لینے والے سے وصول کرے۔   
ترجمہ : (٣٨٤)اگر مکفول لہ  نے دو کفیل میں سے ایک کو مال سے بری کردیا تو وہ دوسرے کفیل سے پورا مال لے سکتا ہے 
ترجمہ : ١   اس لئے کہ کفیل کو بری کرنے سے اصیل بری نہیں ہوتا اس لئے پورا مال اصیل پر باقی ہے ، اور دوسرا آدمی اس کے پورے مال کا کفیل ہے ، جیسا کہ پہلے بیان کیا ہے، اس لئے پورا مال دوسرے کفیل سے لے گا۔ 
تشریح  : پہلے اصول گزرا کہ کفیل کو بری کرنے سے اصیل کا قرض معاف نہیں ہوگا ، اس پر تو قرض رہے گا ہی ، اس لئے اگر ایک کفیل کو قرض دینے والے نے مال سے بری کردیا تو اصیل پر قرض باقی ہے ، اور دوسرا آدمی پورے مال کا کفیل ہے اس لئے قرض دینے والا دوسرے کفیل سے پورا قرض وصول کرے گا ۔ 
ترجمہ  : (٣٨٥)  اگر شرکت مفاوضہ والے الگ ہوگئے تو قرض دینے والوں کو حق ہے کہ دونوں میں سے جس سے چاہے پورا قرض وصول کرے ۔ 
ترجمہ  : ١  اس لئے کہ دونوں اپنے ساتھی کا کفیل ہے ، جیسے کہ کتاب الشرکة میں معلوم ہوا ۔ 
تشریح  : شرکت مفاوضہ  میں دونوں ایک دوسرے کا کفیل بھی ہوتا ہے اور وکیل بھی ہوتا ہے ، اس لئے اگر دونوں جدا ہوگئے اور شرکت چھوڑ دی تو قرض دینے والوں کو یہ حق ہے جن سے چاہے پورا قرضہ وصول کرلے ، کیونکہ دونوں ایک دوسرے کے کفیل ہیں ۔  
وجہ  : عن الحکم قال اذا لحق احد المتفاوضین دین فھو علیھما جمیعا۔ ( مصنف ابن ابی شیبة ، باب فی 

Flag Counter