Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

81 - 515
القول قول من أنکر الشرط کما ف الخیار٣  أما الأجل ف الکفالة فنوع منہا حتی یثبت من غیر شرط بأن کان مؤجلا علی الأصیل٤  والشافع رحمہ اللہ ألحق الثان بالأول٥  وأبو یوسف رحمہ اللہ فیما یروی عنہ ألحق الأول بالثان والفرق قد أوضحناہ.(٣٧٨) قال ومن اشتری 

اس کی بات مانی جائے گی ، جیسے خیار شرط میں ہوتا ہے ، کہ جو انکار کرتا ہے قسم کے ساتھ اسکی بات مانی جاتی ہے ۔ 
تشریح  : یہ دوسری دلیل عقلی ہے کہ قرض میں مدت شامل نہیں ہوتی ، بلکہ عارضی ہوتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ الگ سے مدت لے گا تو مدت ملے گی ، اور نہیں لے گا تو نہیں ملے گی، اور کبھی دعوی کرنا پڑے توگواہ ہو تو فیصلہ کیا جائے گا ، اور گواہ نہ ہو تو  قسم کے ساتھ منکر کی بات مانی جائے گی ۔ اس کی ایک مثال دیتے ہیں ، کہ بیع میں خیار شرط لینا عارضی ہے، بغیر لئے نہیں ملے گی چنانچہ گواہ نہ ہو تو منکر کی بات مانی جاتی ہے اسی طرح یہاں بھی منکر کی بات مانی جائے گی ۔ 
 ترجمہ  : ٣  بہر حال کفالہ میں مدت تو کفالہ ہی کی ایک قسم ہے ، اس لئے بغیر شرط کے بھی مدت مل جائے گی ، مثلا اصیل پر ہی تاخیر کرکے قرض ہو تو کفیل پر بھی تاخیر کرکے کفالت ہوگی ۔
تشریح  : کفالہ کی دو قسمیں مدت والی اور بغیر مدت کے ، چنانچہ اصل قرض والے پر تاخیر کے ساتھ قرض ہو تو کفیل پر بھی تاخیر کے ساتھ ہی قرض لازم ہوگا ، تو اس سے پتہ چلا کہ بغیر شرط لگائے بھی کفالت میں مدت ملتی ہے ، اس لئے یہاں کہا جائے گا تاخیر والی کفالت ہے اس لئے گواہی دئے بغیر کفیل کو  مدت مل جائے گی ۔ 
ترجمہ  : ٤  امام شافعی  نے دوسرا ]یعنی کفالت کے مسئلے کو پہلے ] یعنی قرض [کے مسئلے کے ساتھ ملادیا ۔ 
تشریح  :قرض میں یہ تھا کہ مدت نہیں ملتی تھی اور اس بارے میں منکر ] مقرلہ [ کی بات مانی جاتی تھی ، چنانچہ کفالت کے مسئلے میں بھی منکر کی بات مانی جائے گی اور کفیل کو مدت نہیں ملے گی ۔ 
وجہ : وہ فرماتے ہیں کہ دونوں میں گواہ نہیں ہے تو دونوں میں منکر کی بات مانی جائے گی ۔ 
  ترجمہ  : ٥  اور امام ابو یوسف  نے جیسا کہ ان سے روایت ہے کہ پہلے ]قرض [کے مسئلے کو دوسرے ]کفالت [ کے ساتھ ملا دیا ہے ، اور دونوں کے درمیان فرق ہم نے واضح کردیا ہے ۔ 
تشریح  : حضرت امام ابو یوسف  سے روایت یہ ہے کہ کفالت میں مہلت ملتی ہے اسی طرح قرض میں بھی مہلت ملے گی ، اور اقرار کرنے والے کی بات مانی جائے گی ۔ 
وجہ  : جب قرض کے اقرا رکرنے والے اقرار ہی کر رہا ہے مدت کی تو قرض میں مدت شامل ہوجائے گی ، جیسے کفالہ میں مدت شامل ہوتی ہے ، اس لئے اقرا رکرنے والے کو دونوں میں مدت ملے گی ، چاہے اس کے پاس گواہ نہ ہو ۔

Flag Counter