Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

72 - 515
الآمر.٦  وقال زفر رحمہ اللہ لا یرجع لأنہ لما أنکر فقد ظلم ف زعمہ فلا یظلم غیرہ ونحن نقول صار مکذبا شرعا فبطل ما زعمہ.(٣٧٢)  قال ومن باع دارا وکفل رجل عنہ بالدرک فہو تسلیم ١ لأن الکفالة لو کانت مشروطة ف البیع فتمامہ بقبولہ ثم بالدعوی یسعی ف نقض ما تم من جہتہ ٢ ون لم تکن مشروطة فیہ فالمراد بہا أحکام البیع وترغیب المشتر فیہ ذ لا یرغب 

تشریح  : امام زفر  فر ماتے ہیں کفیل نے پہلے کہا تھا کہ نہ میں کفیل ہوں اور نہ مکفول عنہ پر قرض ہے ، اسی لئے مدعی نے دعوی کرکے فیصلہ کرایا ہے ، پس کفیل نے جب پہلے کہا ہے کہ مکفول عنہ پر قرض نہیں ہے تو اب کیسے اس سے رقم وصول کرے گا ، اس لئے وہ مقروض سے رقم نہیں وصول کرے گا، جب اس پر ظلم ہوا ہے تو یہ ظلم دوسرے پر کیوں ڈالے گا ۔      
حنفیہ کی جانب سے اس کا جواب یہ ہے کہ قاضی جب کفیل کو جھٹلا دیا اور فیصلہ کردیا کہ مکفول عنہ پر قرض ہے ، تو یہ قرض ثابت ہوچکا ہے، اور کفیل نے اس کی وجہ سے رقم دی بھی ہے ، اس لئے مکفول عنہ سے وصول کرے گا۔ 
ترجمہ  : (٣٧٢) کسی نے گھر بیچا  اور اس کی جانب سے کوئی آدمی کفیل بالدرک بن گیا ، تو کفیل یہ تسلیم کر رہا ہے کہ یہ پورا گھر مکفول عنہ کا ہے ۔ 
ترجمہ  : ١  اس لئے کہ کفالہ اگر بیع میں شرط ہے تو کفیل کے قبول کرنے کے بعد ہی بیع پوری ہوگی ، پھر یہ دعوی کرنا کہ میرا گھر ، اپنی جانب سے جو چیز پوری کی اسی کو توڑنا ہوا۔  
تشریح  : مثلا زید نے گھر بیچا ، اور عمر اس کا کفیل بن گیا اور مشتری سے کہا کہ کوئی اس گھر کا مستحق نکلے تو میں اس کا ضامن ہوں  تو جملہ اس بات کی دلیل ہے کہ  یہ گھر بائع کا ہی ہے ، اب خود کفیل اس بات کا دعوی نہیں کر سکتا کہ یہ گھر میرا ہے ۔ 
وجہ  : اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر بیع میں کفیل کی شرط تھی ، تو بغیر کفیل بنے ہوئے، اور اس کے قبول کئے ہوئے بیع ہی نہیں ہوگی، پس جب اس نے قبول کرلیا کہ یہ گھر بائع کا ہے ، اب یہ دعوی کرنا کہ یہ گھر میرا ہے اپنی بات کے خلاف کرنا ہے ، اس لئے اس کی بات سنی ہی نہیں جائیگی ۔ 
لغت  : کفیل بالدرک : درک کا معنی ہے پانا ، کوئی مشتری کو یہ کہے کہ یہ گھر بائع ہی کا ہے ، لیکن اگر کسی دوسرے کا نکل گیا تو میں گھر کی قیمت کا ذمہ دار ہوں ، اس کو ٫کفیل بالدر ک ، کہتے ہیں ۔ یسعی فی نقص ما تم من جھتہ : جو بات کفیل ہی کی جانب سے پوری ہوئی اسی کو توڑنے کی کوشش کرنا ہوا۔
ترجمہ  : ٢  اور اگر کفالت کی شرط نہیں تھی تو کفیل کی مراد بیع کو مضبوط کرنا ہے ، اور مشتری کو ترغیب دینا ہے ، کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بغیر کفالہ کے رغبت نہیں کرتا ، اس لئے  کفیل کی ترغیب بائع کی ملک کے درجے میں ہوگیا ۔ 

Flag Counter