Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

67 - 515
البائع فہو علیہ ١  ومعناہ الأمر ببیع العینة مثل أن یستقرض من تاجر عشرة فیتأبی علیہ ویبیع منہ ثوبا یساو عشرة بخمسة عشر مثلا رغبة ف نیل الزیادة لیبیعہ المستقرض بعشرة ویتحمل علیہ خمسة سم بہ لما فیہ من العراض عن الدین لی العینوہو مکروہ لما فیہ من العراض 

اصول  : یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ کفیل اصیل کا وکیل نہیں بنا تو نفع اور نقصان کا ذمہ دار خود کفیل ہوگا ، مقروض نہیں ہوگا ۔  
تشریح  : مثلا زید پر ایک ہزار قرض تھا اس نے خالد کو حکم دیا کہ وہ کفیل بن جائے ، خالد کے پاس بھی رقم نہیں تھی ، اس لئے زید نے خالد کو کہا کہ میرے نام پر عبد الرحیم سے ریشم کا بیع عینہ کرلے ، اس نے بارہ سو کا بیع عینہ کرلیا ، پھر اس کو ایک ہزار میں بیچ کر زید نے کا قرض ادا کر دیا ، اور گویا کہ دو مزید عبد الرحیم کو نفع دیا ، اب سوال یہ ہے کہ یہ دو سو کس کا گیا ، زید کا یا خود کفیل خالد کا ؟ ، ماتن  فرماتے ہیں کہ خریدنا بھی خالد کی جانب سے ہے ، اور دو سو نفع بھی خالد ہی بھرے گا ، زید نہیں بھرے گا۔ 
وجہ : اس کی وجہ یہ ہے کہ زید نے جو کہا کہ میرے نام پر ریشم کا بیع عینہ کر لو اس سے خالد ریشم  خریدنے  وکیل نہیں بنا(١) وکیل بننے کے ٫علی ّ ،استعمال نہیں ہوتا ، بلکہ٫ الیّ ،استعمال ہوتا ہے ، اور یہاں زید یتعین علیّ، کہا ہے اس لئے خالد وکیل نہیں بنا ، اور جب وکیل نہیں بنا تو یہ خریدنا اورنفع دینا سب خالد کے سر پر ہے اس لئے وہی نفع بھرے گا(٢) ریشم متعین نہیں ہے کہ کتنا کیلو ہے ، اس لئے مبیع مجہول ہوگئی ۔(٣) ثمن بھی مجہول ہے کہ کتنے کا خریدے گا اور اس پر کتنا نفع دے گا ، اس لئے مبیع اورثمن مجہول ہونے کی وجہ سے وکالت فاسد ہوگئی ، اس لئے بھی خریدنا اور نفع دینا خالد کفیل کے لئے ہوگا۔   
لغت  : بیع عینہ کی شکل یہ ہوتی ہے ، مثلا زید خالد کے پاس دس درہم قرض مانگنے گیا ، خالد نے دس درہم نہیں دیا ، بلکہ دس درہم کا کپڑا پندرہ درہم میں  ادھار دے دیا ، تاکہ زید اس کپڑے کو بیچ کر دس درہم قرضہ ادا کردے ، اور بعد میں مجھے پندرہ درہم دے دے ، اس میں درہم دینے کے بجائے عین چیز کپڑا دیا ، اس لئے اس کو بیع عینہ ، کہتے ہیں ، یہ جائز تو ہے ، لیکن    بخالت کی وجہ سے مکروہ ہے ۔ 
ترجمہ  : ١  اس کا معنی یہ ہے کہ عینہ کے طور پر بیچے ، مثلا کسی تاجر سے دس درہم قرضہ مانگے ، اور وہ انکار کردے ، اور قرض مانگنے والے سے دس درہم کا کپڑا پندرہ درہم میں بیچ دے نفع حاصل کرنے کے لئے تاکہ قرضہ مانگنے والا اس کپڑے کو دس درہم میں بیچے اور پانچ درہم اپنے اوپر برداشت کرے ، اس کا نام عینہ اس لئے رکھا کہ اس میں قرض سے اعراض  کرکے عین چیز کی طرف گیا ہے ، یہ بیع عینہ مکروہ ہے ، اس لئے کہ قرض کی نیکی سے اعراض کر رہا ہے اور بخل کی مذمت کی اطاعت کر رہا ہے ۔  
تشریح  : واضح ہے ۔ 
وجہ  : اس حدیث میں ہے کہ بیع عینہ اچھا نہیں ہے۔عن ابن عمر قال سمعت رسول اللہ  ۖ یقول اذا تبایعتم 

Flag Counter