Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

65 - 515
البیوع(٣٦٧) ولو کانت الکفالة بکر حنطة فقبضہا الکفیل فباعہا وربح فیہا فالربح لہ ف الحکم١  لما بینا أنہ ملکہ (٣٦٨)قال وأحب ل أن یردہ علی الذ قضاہ الکر ولا یجب علیہ ف الحکم ١ وہذا عند أب حنیفة رحمہ اللہ ف روایة الجامع الصغیر٢  وقال أبو یوسف ومحمد رحمہما اللہ ہو لہ ولا یردہ علی الذ قضاہ وہو روایة عنہ وعنہ أنہ یتصدق بہ. لہما أنہ ربح فی 

کہا جا سکتا ہے کہ اس رقم کا مالک کفیل بن گیا ، اور اپنی طرف سے دوسرا درہم کفیل نے مقروض کو واپس کردیا ، اس لئے اتنی سی کراہیت پر عمل نہیں کیا جائے گا ۔      
ترجمہ : ( ٣٦٧)  اور اگر ایک کر گیہوں کا کفیل بنا اور کفیل نے سکو لے لیا اور اس کو بیچ کر نفع کمایا تو حکم کے اعتبار نفع کفیل کا ہے  
ترجمہ  : ١  کیونکہ ہم نے بیان کیا کہ کفیل اس گیہوں کا مالک بن گیا ہے ۔ 
تشریح  : کر گیہوں متعین کرنے سے متعین ہوتا ہے اس لئے اس سے نفع کمایا تو کرہیت کچھ زیادہ آگئی ہے اس لئے قضا کے اعتبار سے گیہوں دینے والے مقروض کو واپس کرنا ضروری نہیں ہے ، لیکن دیانت یہ نفع مقروض کو واپس کردے ، اور ایک روایت یہ ہے کہ اس نفع کو صدقہ کردے ۔ 
ترجمہ  : (٣٦٨)  لیکن مجھے یہ پسند ہے کہ جس نے گیہوں دیا ہے ]مقروض کو[نفع واپس کردے ، لیکن قضاء یہ واجب نہیں ہے  
ترجمہ  : ١  یہ امام ابو حنیفہ  کی روایت جامع صغیر میں ہے ۔ 
تشریح  : جامع صغیر کی روایت میں ہے کہ جس نے گیہوں دیا تھا اس کو نفع واپس کردے ، یعنی قرض لینے والے کو واپس کردے ۔ 
وجہ  : اس کی وجہ یہ ہے کہ مکفول عنہ نے اس امید پر کفیل کو گیہوں دیا تھا کہ تم ادا کردوگے ، لیکن جب ادا نہیں کیا ، اور گیہوں متعین کرنے سے متعین ہوتا ہے اس سے معلوم ہوا کہ قرض لینے والے کے مال سے نفع اٹھایا ہے اس لئے اصل گیہوں کے ساتھ نفع بھی مقروض کو واپس کردے ۔    
ترجمہ  : ٢  امام ابو یوسف  اور امام محمد  کے نے فرمایا کہ یہ نفع کفیل کے لئے ہی ہے ، اس کو مقروض کو واپس نہ کرے ، یہی ایک روایت امام صاحب کی بھی ہے ،اور ایک روایت یہ ہے کہ اس نفع کو صدقہ کردے ۔، صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ ہے کہ اپنی ملکیت میں نفع اٹھایا ہے اس طرح جو ہم نے بیان کیا ، اس لئے یہ نفع کفیل کے لئے ہی سلامت رہے گا ۔
تشریح  : امام ابو حنیفہ  کی تین روایتیں ہوگئیں ]١[ …بہتر یہ ہے کہ مقروض کو نفع واپس کرے ،البتہ قضاء یہ فیصلہ نہیں کیا

Flag Counter