Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

59 - 515
ولہذا تصح ون لم یسم المکفول لہم٢  ولہذا قالوا نما تصح ذا کان لہ مال٣  أو یقال نہ قائم مقام الطالب لحاجتہ لیہ تفریغا لذمتہ وفیہ نفع الطالب فصار کما ذا حضر بنفسہ٤  ونما یصح بہذا اللفظ ولا یشترط القبول لأنہ یراد بہ التحقیق دون المساومة ظاہرا ف ہذہ الحالة فصار 

لہ کی عدم موجودگی میں کفیل بن جائے تو اس صورت میں وارث کا کفیل بننا صحیح ہے۔  
وجہ : یہ اصل میں کفیل بننا نہیں ہے بلکہ حقیقت میں قرض خواہوں کو قرض ادا کرنے کے لئے وصیت ہے ۔اور کفیل حقیقت میں وصی ہے اس لئے اس صورت میںمکفول لہ کے قبول کئے بغیر بھی کفیل بننا درست ہے (٢) یہاں مجبوری بھی ہے کیونکہ موت کے وقت تمام قرض  دینے والے حاضر نہیں ہوتے ہیں ۔اب اگر کفیل یا وصی نہ بنایا جائے تو قرض دینے والوں کا قرض ضائع ہو جائے گا۔اس لئے مکفول لہ کے قبول کئے بغیر کفیل بننا درست ہے۔  
لغت : الغرماء  :  قرض دینے والے،قرض خواہ۔
ترجمہ  : ٢  اسی لئے حضرات نے کہا ہے کہ مریض کا یہ جملہ اس وقت صحیح ہوگا جبکہ اس کے پاس مال ہو ۔
تشریح  : چونکہ مریض یہ جملہ ٫تکفل عنی بما علی من الدین ،وصیت ہے اور وصیت جاری کرنے کے لئے مال ہونا ضروری ہے ، اس لئے کچھ حضرات نے فرمایا کہ مال کا موجود ہونا ضروری ہے ۔
ترجمہ  :٣  یا یہ کہا جائے کہ مریض خود قرض دینے والے کے قائم مقام ہے کیونکہ اپنے ذمے کو فارغ کرنے کی ضرورت ہے ، اور اس میں قرض دینے والے کا نفع ہے ، جیسے کہ خود قرض دینے والے حاضر ہوجاتے اور وارث سے کہتے میرے لئے کفیل بن جائیں  
تشریح  :  یہاں کفالت صحیح ہونے کے لئے یہ دوسری تاویل ہے ، یوں سمجھا جائے گا کہ خود مریض قرض دینے والے کے قائم مقام ہوگیا ، اس وقت مریض کا٫ تکفل عنی، کہنا ہی ایجاب اور قبول دونوں ہوگیا اور کفالہ درست ہوگیا ، کیونکہ مریض کو اپنی ذمہ داری پوری کرنی ہے ، اور قرض دینے والے کا اس میں نفع ہے اس لئے مریض کا ایک جملہ سب کے لئے کافی ہوگیا ۔ اس کی ایک مثال دیتے ہیں خود قرض دینے والے حاضر ہوکر وارث سے کہتے کہ آپ میرا وکیل بن جائیں تو درست ہوجاتا ، پس اسی طرح خود مریض طالب کے قائم مقام ہوگیا تب بھی کفالت ہوجائے گی ۔   
ترجمہ  : ٤  صرف تکفل عنی کے لفظ سے کفالہ صحیح ہوگیا اور مکفول لہ کی جانب سے قبول کی شرط نہیں لگائی گئی اس لئے کہ یہاں کرنا ہی مقصود ہے ، بھاؤ تاؤ کرنا مقصود نہیں ہے ، تو ایسا ہوگیا جیسے عورت کو نکاح کا حکم دے ۔ 
تشریح : یہ اشکال کا جواب ہے ، اشکال یہ ہے کہ یہاں مجلس میںمکفول لہ کے قبول کرنے کی شرط کیوں نہیں لگائی تو اس کا دو 

Flag Counter