Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

58 - 515
النکاح. ٣ ولہما أن فیہ معنی التملیک وہو تملیک المطالبة منہ فیقوم بہما جمیعا والموجود شطرہ فلا یتوقف علی ما وراء المجلس (٣٦٣) لا ف مسألة واحدة وہ أن یقول المریض لوارثہ تکفل عن بما عل من الدین فکفل بہ مع غیبة الغرماء جاز١  لأن ذلک وصیة ف الحقیقة 

وجہ : اس دوسری روایت کی وجہ یہ ہے کہ ، یہ نکاح فضولی کی طرح ہے ، کتاب النکاح میں حضرت امام ابو یوسف  کا قول گزرا کہ عورت اپنی جانب سے اصیل ہو اور شوہر کی جانب سے فضولی ہو ، یعنی شوہر نے نکاح کرانے کا حکم نہیں دیا ، پھر بھی دو گواہوں کے سامنے عورت یہ کہے کہ میں نے اپنا نکاح زید سے کیا ، اور بعد میں زید کو اس کی خبر پہنچی تو اس نے کہا کہ میں نے قبول کر لیا تو نکاح ہوجائے گا، اسی طرح کفیل اپنی جانب  سے اصیل ہے اور مکفول لہ کی جانب سے گویا کہ فضولی ہے ، اس لئے مکفول لہ کو بعد میں خبر پہنچی اور اس نے کفالت کو قبول کر لیا تب بھی کفالت درست ہوجائے گی ، حاصل یہ ہے کہ مجلس کے اندر قبول کرنا ضروری نہیں ہے بعد میں بھی قبول کرلے تب بھی کفالت ہوجائے گی ۔ ۔ اثمار ہدایہ ،کتاب النکاح ، فصل فی الوکالة بالنکاح ، ص ١٤٩، نمبر ١٥٧٩)   
ترجمہ  : ٣  امام ابو حنیفہ : اور امام محمد  کی دلیل یہ ہے کہ یہ مکفول لہ کو مطالبے کا مالک بنانا ہے ، اس لئے کفیل اور مکفول لہ دونوں سے کفالت قائم ہوگی ، اور موجود ایک ہی حصہ ہے ، اس لئے مجلس کے باہر پر موقوف نہیں ہوگا ۔ 
تشریح  : طرفین  کی دلیل یہ ہے کہ کفیل مکفول لہ کو مطالبے کا مالک بنا رہا ہے ، کہ آج سے آپ ہم سے بھی رقم کا مطالبہ کر سکتے ہیں ، اور کسی چیز کا مالک بنانا ہو تو پھر مجلس میں ایجاب اور قبول کی ضرورت پڑتی ہے اس کے بغیر مالک نہیں بنے گا ، جیسے بیع میں مجلس میں ایجاب اور قبول نہ ہو تو مشتری مبیع کا مالک نہیں ہوتا ، اور مجلس ختم ہونے کے بعد قبول کرے تو اس کا اعتبار نہیں ہوتا اسی طرح یہاں مجلس کے بعد قبول کرے تو کفالت نہیں ہوگی۔
لغت : فیقوم بھما جمیعا : یہاں بھما سے مراد کفیل کا ایجاب ، اور مکفول لہ کا قبول ہے ، یعنی دونوں کے ایجاب اور قبول سے کفالت ہوگی ۔شطرہ : ایک حصہ ، یعنی صرف کفیل کا ایجاب پایا گیا ۔ما وراء المجلس : مجلس سے باہر ۔    
ترجمہ  :(٣٦٣)مگر ایک مسئلہ میں وہ یہ کہ بیمار اپنے وارث سے کہے کہ میری جانب سے کفیل ہو جاؤ اس چیز کاجو میرے اوپر دین ہے ،پس اس کا کفیل بن گیا قرضخواہوں کی عدم موجودگی میں تو جائز ہے۔
ترجمہ  : ١  اس لئے کہ یہ حقیقت میں وصیت ہے ، اسی لئے مکفول لہ کا نام نہ لے تب بھی صحیح ہوجاتا ہے۔   
تشریح:  یہ ایک مسئلہ ایسا ہے کہ مکفول لہ کفالت کو قبول نہ کرے بلکہ مکفول لہ غائب ہو تب بھی کفالت درست ہے وہ یہ ہے کہ ایک آدمی مرض الموت میں مبتلا ہے اور اپنے وارث سے کہتا ہے کہ مجھ پر جتنا دین ہے اس کا تم کفیل بن جاؤ اور وہ مکفول 

Flag Counter