Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

507 - 515
 المرتد موقوفۃ عندہ فکذا وکالتہ فإن أسلم نفذ وإن قتل أو لحق بدار الحرب بطلت الوکالۃ۴؎  فأما عندہما تصرفاتہ نافذۃ فلا تبطل وکالتہ إلا أن یموت أو یقتل علی ردتہ أو یحکم بلحاقہ وقد مر في السیر۵؎  وإن کان الموکل امرأۃ فارتدت فالوکیل علی وکالتہ حتی تموت أو تلحق بدار 

وکالت نافذ رہے گی اور اگر ارتداد کی حالت میں قتل کیا گیا ، یا دار الحرب چلے جانے کا قاضی نے فیصلہ کردیا تو اب وکالت باطل ہوجائے گی ۔ 
تشریح یہاں سے امام ابو حنیفہ  اور صاحبین کے درمیان فرق بتا رہے ہیں ۔ امام ابو حنیفہ  کا اصول یہ ہے کہ مرتد کے زمانے میں اسکا تصرف موقوف رہتا ہے اسی طرح اس کا بنایا ہوا وکیل کی وکالت بھی موقوف رہے گی ، اگر بعد میںمسلمان ہوگیا تو وکالت بحال رہے گی ،اور ارتداد کے زمانے میں کیا ہوا کام نافذ کردیا جائے گا ۔ اور اگر کافر ہوکر مرا ، یا قتل کیا گیا ، یا دار الحرب بھاگ گیا اور قاضی نے اسکے دار الحرب میں مل جانے کا فیصلہ کر دیا تو ان تینوں صورتوں میں اس کے وکیل نے ارتداد کے زمانے میں جو کام کئے تھے سب باطل جائیں گے ، اور یوں سمجھا جائے گا کہ جس دن سے مرتد ہوا تھا اسی دن سے وکالت ختم ہوگئی 
ترجمہ  : ٤  بہر حال صاحبین  کے نزدیک تو مرتد کے زمانے کا تصرف نافذ رہتا ہے اس لئے اس کی وکالت ختم نہیں ہوگی ، یہاں تک کہ وہ مر جائے ، یا ارتداد کی حالت میں قتل کردیا جائے ، یا دار الحرب میں مل جانے کا فیصلہ کردیا جائے ۔اور ی بحث کتاب السیر میں گزر چکی ہے ۔ 
تشریح  : صاحبین  کا اصول یہ ہے کہ  ارتداد کے زمانے کا تصرف نافذ رہتا ہے اس لئے اس زمانے میں اس کے وکیل نے جو کام کیا وہ سب نافذ ہوں گے ، ہاں جس دن موکل مر گیا ، یا مرتد ہوکر قتل کیا گیا ، یا دار الحرب چلے جانے کا قاضی نے فیصلہ سنا دیا اس دن سے وکالت ختم ہوجائے گی ، کیونکہ اب موکل اہل نہیںرہا ۔
ترجمہ  : ٥    اگر موکل عورت  ہو اور وہ مرتد ہوگئی تو وکیل اپنی وکالت پر رہے گا یہاں تک کہ عورت مر جائے ، یا دار الحرب چلی جائے ، اس لئے کہ اس کی ارتداد اس کے عقد میں اثر انداز نہیں ہوتی ، جیسا کہ پہلے معلوم ہوچکا ہے ۔ 
تشریح : عورت کا اصول یہ ہے کہ اگر وہ مرتد ہوگئی تو ارتداد کے زمانے میں اس کا تصرف سب کے نزدیک بحال رہتا ہے اس لئے اس زمانے میں اس کے وکیل کی وکالت بھی بحال رہے گی اور اس کا کام نافذ رہے گا ۔ ، ہاں جس دن مر گئی ، یا دار الحرب چلے جانے کا فیصلہ قاضی نے سنا دیا تب وکیل کی وکالت ختم ہوجائے گی ۔ کیونکہ اب وہ وکیل بنانے کی اہل نہیں رہی ۔        
نوٹ : حاکم اور امیر کے جتنے وکیل ہیں ان کے مرنے سے وکیلوں کی وکالت ختم نہیں ہوگی وہ اپنی وکالت پر بحال رہیںگے۔  
 وجہ : (١) وہ اصل میں حاکم اور امیر کے وکیل نہیں ہیں بلکہ عوام کے وکیل ہیں اور وہ زندہ ہیں اس لئے ان کی وکالت باطل 

Flag Counter