Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

489 - 515
 الأولی۔۸؎  وعنہ أنہ فصل بین الطالب والمطلوب ولم یصححہ في الثاني لکونہ مجبورا علیہ ویخیر الطالب فیہ۹؎  فبعد ذلک یقول أبو یوسف رحمہ اللہ إن الوکیل قائم مقام الموکل وإقرارہ لا یختص بمجلس القضاء فکذا إقرار نائبہ۔۱۰؎  وہما یقولان إن التوکیل یتناول جواب یسمی خصومۃ حقیقۃ أو مجازا والإقرار في مجلس القضاء خصومۃ مجازا إما لأنہ خرج في  

لغت  : تنصیص : نص سے مشتق ہے ، صراحت کرنا ۔ یحمل علی الاولی : پہلے پر محمول کیا جائے گا ، یعنی مطلق جواب کا اختیار ہوگا ، جس میں اقرار اور انکار دونوں کی گنجائش ہو ۔
ترجمہ  : ٨  امام محمد  کی دوسری روایت یہ ہے کہ مدعی اور مدعی علیہ کے  وکیل کے درمیان میں فرق کیا ہے ، اور دوسرے ] یعنی مدعی علیہ [میں استثناء صحیح قرار نہیں دیااس لئے کہ مدعی علیہ مجبور ہے ، اور مدعی کی صورت میں وکیل کو اقرار اور انکار دونوں کا اختیار ہے  
تشریح  : امام محمد سے ایک دوسری روایت بھی ہے ، کہ اگر مدعی کا وکیل ہے تو چونکہ اس کا موکل رقم طلب کرنے والا ہے اس لئے لینے کا بھی حق ہے اور چھوڑ دینے کا بھی حق ہے  ، تو اسی طرح اس کے وکیل کو اقرار کا بھی حق ہوگا اور انکار کا بھی حق ہوگا۔ اور مدعی علیہ کا وکیل ہے تو وہ چونکہ مقدمہ کے لئے آنے میں مجبور ہے اس لئے صرف انکار ہی کر سکتا ہے اسلئے اس کے وکیل کو صرف انکار کا حق ہوگا
لغت : طالب : سے مراد مدعی ہے اسلئے کہ وہ مطالبہ کرتا ہے  ۔ اور مطلوب سے مرادمدعی علیہ ہے اس لئے کہ اس سے مطالبہ کیا جاتا ہے۔ثانی سے مراد مدعی علیہ ہے ۔ یخیر الطالب :  مدعی کو اختیار ہے کہ استثناء کرے یا نہ کرے ، یعنی وکیل کو اقرار کی اجازت دے یا منع کردے ۔
 ترجمہ  : ٩   اس کے بعد امام ابو یوسف  فرماتے ہیں کہ وکیل موکل کے قائم مقام ہے ، اور موکل کا اقرار مجلس قضا کے ساتھ خاص نہیں ہے ایسے ہی اس کے نائب کا اقرار مجلس قضا کے ساتھ خاص نہیں ہوگا ۔
تشریح  : امام ابو یوسف  فرماتے ہیں کہ وکیل موکل کانائب ہے اور موکل قضا کی مجلس میں اقرار کرسکتا ہے اور اس کے علاوہ میں بھی اقرار کر سکتا ہے اسی طرح وکیل بھی مجلس قضا میں بھی اقرار کرسکتا ہے اور اس کے علاوہ میںبھی اقرار کرسکتا ہے ۔ 
ترجمہ :  ١٠     امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  فرماتے ہیں کہ  وکیل بنانے کا مطلب یہ ہے ایسا جواب دے جو یا حقیقت میں خصومت ہو یا مجازا خصومت ہو ، اور قضا کی مجلس میں اقرار کرنا یہ مجازا خصومت ہے اس لئے کہ یہ خصومت کے مقابلے پر کہا ہے ۔ یا اس لئے اقرار کا سبب خصومت ہے اس لئے کہ ظاہر یہی ہے کہ مستحق کو لائے گا ] یعنی اقرار کرے گا [ مستحق کے طلب کرتے 

Flag Counter