Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

486 - 515
 اللہ لا یجوز في الوجہین وہو قول أبي یوسف رحمہ اللہ أولا۲؎  وہو القیاس لأنہ مأمور بالخصومۃ وہي منازعۃ والإقرار یضادہ لأنہ مسالمۃ والأمر بالشیء لا یتناول ضدہ ولہذا لا 

مخرمة اخبراہ ان رسول اللہ قام حین جاء ہ وفد ھوازن مسلمین ... فقال رسول اللہ ۖ انا لاندری من اذن منکم فی ذلک ممن لم یأذن فارجعوا حتی یرفعو الینا عرفاؤکم امرکم فرجع الناس فکلمھم عرفاؤھم ثم رجعوا الی رسول اللہ ۖ فاخبروہ انھم قد طیبوا واذنوا ۔(بخاری شریف،باب اذا وھب شیئا لوکیل او شفیع قوم جاز، ص ٣٦٩، نمبر ٢٣٠٧) اس حدیث میں سرداروں نے قوم کی وکالت میں حضورۖ کے سامنے اقرار کیا کہ وہ قیدی چھوڑنا چاہتے ہیں اور حضورۖ قاضی بھی تھے۔اس لئے قاضی کے سامنے اقرار کیا جا سکتا ہے (٣) جانتے ہوئے کہ میرا موکل مجرم ہے پھر بھی جرم کا یا رقم کا اقرار نہ کرے توظلم پر اعانت ہوگی جو حدیث میں ممنوع ہے۔عن ابن عمر عن النبی ۖ بمعناہ قال ومن اعان علی خصومة بظلم فقد باء بغضب من اللہ عز و جل ۔(ابو داؤد شریف ، باب فی الرجل یعین علی خصومة من غیر ان یعلم امرھا ،ص ٥١٧، نمبر ٣٥٩٨) اس حدیث کی بنا پر موکل پر اقرار کرنا بھی جائز ہے۔
البتہ اگر غیر قاضی کے سامنے اقرار کیا اور گواہ سے اس کا ثبوت مل گیا کہ وکیل نے ایسا کیا ہے تو وہ وکالت سے نکل جائے گا۔کیونکہ اس نے خلاف قاعدہ کیا ہے۔اور اب موکل کے دین پر اس کو قبضہ نہیں دیا جائے گا یہی 'الا انہ یخرج من الخصومة' کا مطلب ہے
 اصول : مطلق لفظ دونوں کو شامل ہے،ہاں کو بھی اور انکار کو بھی۔اسی قاعدہ پر یہ مسئلہ جاری ہے۔
امام ابو یوسف نے فرمایاجائز ہے وکیل کا اقرار کرنا موکل پر قاضی کے علاوہ کے پاس بھی۔  
تشریح : وکیل نے قاضی کی مجلس کے علاوہ میں موکل پر اقرار کر لیا تب بھی اقرار ہو جائے گا امام ابو یوسف کے نزدیک۔  
وجہ:  :وہ فرماتے ہیں کہ وکیل موکل کے درجے میں ہے اور موکل قاضی کی مجلس کے علاوہ میں کسی چیز کااقرار کرے تو اقرار ہو جاتا ہے تو وکیل بھی قاضی کی مجلس کے علاوہ میں اقرار کرے تو اقرار ہو جائے گا۔
امام شافعی  اور امام زفر  فرماتے ہیں کہ وکیل کو جواب دینے کے لئے اور بچاؤ کے لئے وکیل بنایا ہے اور اقرار کرنا اس کی ضد ہے ، اس لئے اقرار کرنے کا مالک نہیں ہوگا ، اگر اقرار کرلیا تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا ۔ 
ترجمہ : ٢   یہی قیاس کا تقاضہ ہے کہ اس لئے کہ وکیل کو خصومت کا حکم دیا گیا تھا جسکو جھگڑا کہتے ہیں ، اور موکل کے خلاف اقرا کرنا اس کی ضد ہے اس لئے کہ وہ تو صلح ہے اور کوئی چیز اپنی ضد کو شامل نہیں ہوتی ، اسی لئے وکیل صلح کرنے کا یاسامنے والے کو بری کردینے کا مالک نہیں ہوگا ۔ 

Flag Counter