Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

485 - 515
 وقال أبو یوسف یجوز إقرارہ علیہ وإن أقر في غیر مجلس القضاء۔ وقال زفر والشافعي رحمہما 

حاصل : یہاں تین باتیں ہیں ]١[ …موکل کے خلاف قاضی کی مجلس میں اقرار کرلے ، یہ امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کے نزدیک جائز ہے ۔]٢[… موکل کے خلاف قاضی کی مجلس میں اقرار کرلے ،  یا مجلس سے باہر اقرار کرلے دونوں جائز ہیں یہ امام ابو یوسف  کے نزدیک جائز ہے ، لیکن وکالت سے نکل جائے گا ۔ ]٣[… موکل کے خلاف قاضی کی مجلس میں اقرار کرلے ، یا مجلس سے باہر اقرار کرلے دونوں جائز نہیں ہیں یہ امام شافعی  اور امام زفر  کے نزدیک ہے ۔دلیل آگے آرہی ہے ۔ 
تشریح  : ایک آدمی کو وکیل بنایا کہ میری جانب سے قاضی کے سامنے خصومت اور مقدمے کے وکیل بنیں تو اس کے دو مطلب ہیں۔ایک تو یہ کہ آپ اس بات کے وکیل ہیںکہ آپ موکل کے جرم کا اقرار نہ کریں بلکہ ہمیشہ انکار ہی کرتے چلے جائیں یا زیادہ سے زیادہ خاموش رہیں۔اسی لئے آپ کو خصومت کا وکیل مقرر کیا ہے۔اگر اقرار کرنا ہوتا تو میں خود اقرار کر لیتا آپ کو وکیل خصومت بنانے کی ضرورت کیا تھی؟ یہی مطلب امام زفر اور ائمہ ثلاثلہ لیتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ خصومت کا مطلب ہی جھگڑا کرنا اور انکار کرناہے، اور اقرار کرنا اس کی ضد ہے۔اس لئے وکیل ضد کا مالک کیسے بنے گا؟ اس لئے وکیل یا انکار کرے یا دیکھے کہ میرا موکل واقعی مجرم ہے تو خاموش رہے۔البتہ اقرار نہ کرے۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ وہ مطلق جواب کا وکیل ہے جس میں اقرار بھی شامل ہے اور انکار بھی شامل ہے اور خاموش بھی رہ سکتا ہے۔وہ تینوں طریقوں کا مالک ہے۔کیونکہ مطلق خصومت میں تینوں طریقے شامل ہیں۔البتہ چونکہ خصومت کا وکیل ہے اور خصو مت ہوتی ہے قاضی کی مجلس میں اس لئے قاضی کی مجلس ہی میں اقرار کا اعتبار ہوگاتاکہ خصومت ہو،اس سے باہر اقرار کرنے کا اعتبار نہیں ہے ۔یہ مطلب امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ہے۔  
وجہ : (١) امام اعظم کی نظر پہلے کی طرح لفظ مطلق کی طرف گئی ہے (٢) ایک حدیث سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے کہ وکیل موکل پر اقرار کر سکتا ہے اور امام کے سامنے اقرار کا اعتبار ہے۔لمبی حدیث کا حاصل یہ ہے کہ قبیلہ ہوازن کے لوگ قید ہو کر آئے،پھر قبیلہ ہوازن کے لوگ تائب ہو کر آئے اور اپنے قیدی مانگنے لگے ۔آپۖ نے مسلمانوں سے قیدی چھوڑنے کی ترغیب دی تو مسلمان اس پر راضی ہو گئے،آپۖ نے فرمایا اتنی رضامندی سے دلی رضامندی کا پتہ نہیں چلتا۔آپ لوگ اپنے اپنے قبیلے کے سرداروں کے پاس اس کا اقرار کریں اور سردار آپ کی وکالت میں آکر میرے سامنے اقرار کرے کہ آپ لوگ قیدی چھوڑنے پر راضی ہیں تب صحیح ہوگا۔بعد میں سارے سردار آئے اور حضورۖ کے سامنے اپنی اپنی قوم کی وکالت کرتے ہوئے اقرار کیا کہ وہ لوگ قیدی چھوڑنے پر دل سے راضی ہیں۔جس سے معلوم ہوا کہ وکیل موکل کے اوپر اقرار کر سکتے ہیں۔اور قاضی اور امیر کے سامنے اقرار کرے تب اس کا اعتبار معتبر ہوگا۔ حدیث کا ٹکڑا یوں ہے۔زعم عروة ان مروان بن الحکم والمسور بن 

Flag Counter