Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

484 - 515
(۶۶۶) قال وکذلک العتاق والطلاق وغیر ذلک ۱؎ ومعناہ إذا أقامت المرأۃ البینۃ علی الطلاق والعبد والأمۃ علی العتاق علی الوکیل بنقلہم تقبل في قصر یدہ حتی یحضر الغائب استحسانا دون العتق والطلاق۔ (۶۶۷)قال وإذا أقر الوکیل بالخصومۃ علی موکلہ عند القاضي جاز إقرارہ علیہ ولا یجوز عند غیر القاضي ۱؎ عند أبي حنیفۃ ومحمد استحسانا إلا أنہ یخرج عن الوکالۃ 

قبضہ سے ہاتھ روکنے میں قبول  کیا جائے گا معزول کرنے قبول نہیں کیا جائے گا ، ایسے ہی یہاں ہوگا ۔ 
تشریح : یہ ایک مثال ہے ۔ کہ وکیل پر قبضہ والے نے یہ بینہ قائم کیا کہ تم کو موکل نے قبضہ کرنے سے معزول کردیا ہے تو معزول کرنے میں بینہ قبول نہیں کیا جائے اور نہ وہ معزول ہوگا ، البتہ ابھی قبضہ نہیں  دیا جائے گا ۔ اسی طرح غلام کے قبضے کے سلسلے میں بیع ثابت نہیں ہوگی ، البتہ قبضہ نہیں دیا جائے گا ۔ 
ترجمہ  : (٦٦٦) یہی حال ہے آزاد اور طلاق کا اور اس کے علاوہ کا ۔
ترجمہ  : ١   اس کا معنی یہ ہے کہ عورت نے  وکیل پرطلاق پربینہ قائم کیا ، اور غلام اور باندی نے آزاد کرنے پر اس کے منتقل کرنے کے بارے میںتو اس کے ہاتھ روکنے میں قبول کیا جائے گا یہاں تک کہ موکل حاضر ہوجائے استحسان کے طور پر نہ کہ آزاد ہونے میں اور طلاق ہونے میں ۔ 
تشریح  : شوہر نے  مئکے سے بیوی لانے کا وکیل  بنایا ، عورت نے وکیل پر بینہ قائم کیا کہ مجھے طلاق دے دی ہے، تو اب وکیل بیوی کو واپس نہیں لا سکے گا ، اس کا ہاتھ روک دیا جائے گا ، لیکن اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی ،  پس جب شوہر آئے گا تو دو بارہ اس کے سامنے  طلاق پر بینہ قائم کرے تب طلاق کا فیصلہ کیا جائے گا۔ 
 یا غلام اور باندی کو لانے کا وکیل  بنایا ،  غلام اور باندی نے وکیل پر بینہ قائم کیا کہ مجھے آزاد کردیا ہے، تو اب وکیل غلام اور باندی کو واپس نہیں لا سکے گا ، اس کا ہاتھ روک دیا جائے گا ، لیکن اس سے آزادگی واقع نہیں ہوگی ،  پس جب آقا آئے گا تو دو بارہ اس کے سامنے آزاد ہونے پر بینہ قائم کرے تب آزاد ہونے کا فیصلہ کیا جائے گا۔   
ترجمہ : (٦٦٧)اگر مقدمے کا وکیل اپنے موکل پر اقرار کرے قاضی کے پاس تو اس کا اقرار جائز ہے اور وکیل کا اقرار قاضی کے علاوہ کے پاس جائز نہیں ہے
ترجمہ  : ١  امام ابو حنیفہ اور امام محمد کے نزدیک مگر یہ کہ وہ مقدمہ سے نکل جائے گا۔ اور امام ابو یوسف  نے فرمایا کہ وکیل موکل کے اوپر قضا کی مجلس کے علاوہ میں بھی اقرار کرے تو جائز ہے ،اور امام زفر  اور امام شافعی نے فرمایا کہ قاضی کی مجلس میں اور اس کے علاوہ دونوں صورتوں اقرار جائز نہیں ہے ، یہ امام ابو یوسف  کا ایک قول یہی ہے اور قیاس کا تقاضہ بھی یہی ہے ۔  

Flag Counter