Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

480 - 515
 یکون وکیلا بالخصومۃ عند أبي حنیفۃ رحمہ اللہ۱؎  حتی لو أقیمت علیہ البینۃ علی استیفاء الموکل أو إبرائہ تقبل عندہ ۲؎ وقالا لا یکون خصما وہو روایۃ الحسن عن أبي حنیفۃ لأن القبض غیر الخصومۃ ولیس کل من یؤتمن علی المال یہتدي في الخصوماتفلم یکن الرضا بالقبض رضا بہا۔۳؎  ولأبي حنیفۃ رحمہ اللہ أنہ وکلہ بالتملک لأن الدیون تقضی بأمثالہا إذ قبض الدین 

وکیل بنائیں تو اس کے پورے لوازمات کے ساتھ وکیل بنانا پڑتا ہے۔اس لئے قرض کا وکیل مقدمہ اور خصومت کا بھی وکیل ہوگا 
ترجمہ : ١  اسی لئے اگر وکیل پر گواہی قائم کی جائے کہ موکل نے قرض وصول کر لیا ، یا موکل نے قرض سے بری کردیا ہے تو قبول کیا جائے گا ۔ 
تشریح  : قرض پر قبضہ کا وکیل مقدمہ کرنے اور مقدمہ کا دفعیہ کرنے کابھی وکیل ہوتا ہے اس کی دلیل دے رہے ہیں کہ ۔جس کے اوپر قرض تھا اس نے گواہی دلوائی کہ موکل نے یہ قرض وصول کرلیا ہے ، یا یہ قرض معاف کر دیا ہے تو وکیل کو اس کی کاروائی قبول کرنی پڑتی ہے اور گواہی قبول کی جاتی ہے ، جس سے معلوم ہوا کہ قرض کے قبضے کا وکیل مقدمے کا بھی وکیل بن جاتا ہے ۔ آگے آرہا ہے کہ عین چیز کے وصول کا وکیل مقدمے کا وکیل نہیں بنتا ، اس کی وجہ آگے آرہی ہے ۔
لغت : یہاں خصم کا لفظ بار بار آئے گا ، خصم کا معنی ہے مد مقابل ، جھگڑا کرنے والا ، مقدمے میں دوسرے فریق کو خصم کہا جاتا ہے
ترجمہ  : ٢  صاحبین  فرماتے ہیں کہ قرض پر قبضے کا وکیل مقدمے کا وکیل نہیں بنے گا ،  حضرت حسن سے امام ابو حنیفہ  کی ایک روایت  بھی یہی ہے ، اس لئے کہ قبضہ خصومت سیالگ چیز ہے ، اور ہر آدمی جس پر مال کے بارے میں اعتماد ہو مقدمے کا تجربہ نہیں ہوتا اس لئے قبضے کی رضامندی سے مقدمے کی رضامندی نہیں ہوگی ۔    
تشریح :  دین پر قبضہ کرنا اور چیز ہے جو امانت دار کا کام ہے اور مقدمہ کرنا اور چیز ہے جو چالاک اور ماہرین قانون کا کام ہے۔اس لئے دونوں دو الگ الگ کام ہیں۔اور کوئی ضروری نہیں ہے کہ جو امانت دار ہو وہ قانون کا ماہر بھی ہو۔اور اس پر قانونی اعتماد بھی کیا جائے۔اس لئے قبضہ کا وکیل خصومت اور مقدمہ کا وکیل نہیں ہوگا۔  
اصول:  یہ اس اصول پر گئے ہیں کہ قبضہ اور خصومت دو الگ الگ کام ہیں۔ایک پر اعتماد کرنے سے دوسرے کام میں اعتماد کرنا لازم نہیں آتا۔
ترجمہ  : ٣  امام ابو حنیفہ  کی دلیل یہ ہے کہ موکل نے مالک بننے کا وکیل بنایا ہے اس لئے کہ قرض مثل سے ادا کیا جاتا ہے ] اس لئے کہ اصل درہم تو خرچ کر چکا ہے [ اس  لئے اصل قرض پر قبضہ ممکن نہیں ہے، یہ اور بات ہے من وجہ عین قرض ہی کا وصول  ہونا ہے اس لئے شفعہ کے لینے کے وکیل کی طرح ہوگیا ، اور ہبہ کے واپس لینے ، خریدنے کا ،تقسیم کروانے کا اور عیب کی 

Flag Counter