Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

48 - 515
حکمیة فملکہ فیرجع بجمیع الألف ٣ ولو کان صالحہ عما استوجب بالکفالة لا یبرأ الأصیل لأن ہذا براء الکفیل عن المطالبة.(٣٥٣) قال ومن قال لکفیل ضمن لہ مالا قد برئت ل من المال رجع الکفیل علی المکفول عنہ١  معناہ بما ضمن لہ بأمرہ لأن البراء ة الت ابتداؤہا من المطلوب وانتہاؤہا لی الطالب لا تکون لا بالیفاء فیکون ہذا قرارا بالأداء فیرجع 

وصول کرے گا ۔چاہے گائے کی قیمت پانچ سو ہی ہو ۔ 
وجہ  : یہاں ہزار میں سے کچھ ساقط نہیں ہوا ہے حکمی طور پر یہ سمجھا جائے گا کفیل نے قرض دینے والے سے گائے دیکر وہ ایک ہزار خرید لئے ، اس لئے مقروض سے ایک ہزار ہی وصول کرے گا ۔
لغت : مبادلة حکمیة :  یہ محارہ ہے ،حکمی طور پر بیع اور شراء ہوگئی ، اور قرض دینے والا بائع بنا  اور کفیل مشتری بن گیا اور گویا کہ اس نے دوسری جنس دیکر ایک ہزار خرید لیا۔ 
ترجمہ  : ٣  کفالت کی وجہ سے جو ذمہ داری آئی تھی اس کو ساقط کرنے کے لئے صلح کیا تو اصیل بری نہیں ہوگا ، کیونکہ یہ تو کفالت کے مطالبے سے بری ہونا ہے ۔ 
تشریح  : کچھ دیکر یا بغیر دئے کفالت کی ذمہ داری سے مکفول عنہ سے صلح کر لی تو اصل قرض اصیل پر باقی ہے اس لئے وہ بری نہیں ہوگا ۔ 
ترجمہ  : (٣٥٣) قرض دینے والے نے اس کفیل سے کہا جس نے مال کی ذمہ داری لی تھی ٫ تم مجھے مال دیکر بری ہوگئی ہو ،تو کفیل مقروض سے مال وصول کرے گا ۔
ترجمہ  : ١  اس کا معنی یہ ہے کہ مکفول عنہ کے حکم سے کفیل بنا ہو تو ]مال واپس لے گا[اس لئے کہ یہاں برأت کی ابتداء کفیل سے ہے اور اور اس کی انتہاء طالب ] قرض دینے والے تک ہے [اور یہ ادا کرنے کی وجہ سے ہی ہوسکتا ہے ، اس لئے اس میں رقم ادا کرنے کا اقرار ہے ۔ 
اصول  :  یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ ۔ قرض دینے والے نے اس طرح جملہ بولا جس سے یہ محسوس ہوتا ہو کہ کفیل نے رقم ادا کردی ہے ، اور اس کے خلاف کوئی قرینہ ہوتو ادا سمجھی جائے گی ، اور کفیل یہ مال مقروض سے وصول کرسکتا ہے۔
تشریح  : یہاں جملہ ہے  ٫برأت الی من المال ، جملے کا انداز یہ بتا رہا ہے کہ مجھے مال دیکر کفیل بری ہوا ہے اس لئے وہ مال مکفول عنہ سے وصول کر سکتا ہے ۔     
ترجمہ:  ( ٣٥٤)  اور اگر قرض دینے والے نے کہا کہ میں نے آپ کو بری کیا ، تو کفیل قرض لینے والے سے کچھ وصول 

Flag Counter