(۶۶۰) وقال أبو یوسف ومحمد المرتد إذا قتل علی ردتہ والحربي کذلک۱؎ لأن الحربي أبعد من الذمي فأولی بسلب الولایۃ ۲؎ وأما المرتد فتصرفہ في مالہ وإن کان نافذا عندہما لکنہ موقوف علی ولدہ ومال ولدہ بالإجماع لأنہا ولایۃ نظریۃ وذلک باتفاق الملۃ وہي مترددۃ ثم تستقر جہۃ الانقطاع إذا قتل علی الردۃ فیبطل۳؎ وبالإسلام یجعل کأنہ لم یزل مسلما فیصح۔
ترجمہ : ( ٦٦٠) حضرت امام ابو یوسف اور امام محمد نے فرمایا کہ مرتد اپنی ارتداد پر قتل کیا گیا ہو اور اسی طرح حربی ہو تو اس کو اپنی چھوٹی آزاد مسلمان بیٹی پر ولایت نہیں ہوگی ۔
تشریح : مرتد اگر مسلمان ہوجائے تب تو وہ ہمیشہ کی طرح مسلمان شمار کیا جاتا ہے ، لیکن ارتداد کی زمانے میں اس کی حالت دونوں طرف متردد ہوتی ہے ، کیونکہ اگر مسلمان ہوگیا تو ہمیشہ کی طرح مسلمان ہے ، اور بعد میں کافر قتل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ ارتداد کے زمانے میں وہ کافر ہی تھا اس لئے اس کی ولایت چھوٹی آزاد مسلمان بیٹی پر نہیں ہوگی ۔ اسی طرح وہ حربی جو پناہ لیکر دار الاسلام آیا ہو وہ ذمی سے بھی بد تر ہے اس لئے اس کی ولایت چھوٹی مسلمان آزاد بیٹی پر نہیں ہوگی ۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ حربی ذمی سے بھی بد تر ہے اس لئے بدرجہ اولی ولایت سلب کی جائے ۔
تشریح : واضح ہے ۔
ترجمہ : ٢ بہر حال مرتد کا تصرف مال میں صاحبین کے یہاں اگر چہ نافذ ہے لیکن اولاد کے سلسلے میں اور اولاد کے مال کے سلسلے میں بالاجماع موقوف ہے ، اس لئے کہ اس کی ولایت مصلحت کے لئے ہے اور یہ مصلحت مذہب کے ایک ہونے سے ہوتا ہے اور یہ ابھی متردد ہے پھر مرتد پر قتل ہونے کی وجہ سے منقطع ہونا ثابت ہوگیا، اس لئے ولایت ساقط ہوجائے گی ۔
تشریح : صاحبین کے یہاں مرتد کا تصرف اس کے مال میں جائز ہے کہ اپنے مال کو خرید اور بیچ سکتا ہے ، لیکن اولاد پر اور اس کے مال پر بالاتفاق ولایت نہیں ہے ۔ اس کی وجہ یہ فرماتے ہیں کہ اولاد پر ولایت مصلحت کے طور پر ہے ،پس ایک مذہب ہوتو مصلحت اور شفقت ہوگی ، لیکن جب کافر ہوکر قتل کیا گیا تو معلوم ہوا کہ مرتد ہونے کے زمانے میںبھی وہ کفر پر تھا اس لئے مسلمان اولاد پر اس کو شفقت نہیں ہوگی اس لئے اس پر ولایت بھی نہیں ہوگی۔
ترجمہ : ٣ اور مسلمان ہوگیا تو ایسا قرار دیا جائے گا کہ وہ ہمیشہ سے ہی مسلمان رہا ہے اس لئے چھوٹی مسلمان آزاد اولاد پر اس کو ولایت برقرار رہے گی ۔
تشریح : واضح ہے ۔