Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

42 - 515
أدی ما ضمنہ أما ذا أدی خلافہ رجع بما ضمن لأنہ ملک الدین بالأداء فنزل منزلة الطالب ٣  

دینہ یا رسول اللہ فصلی علیہ ۔ (بخاری شریف ، باب من تکفل عن میت دینا فلیس لہ ان یرجع، ص ٣٦٦، نمبر ٢٢٩٥) اس حدیث میں حضرت ابو قتادہ نے میت سے ادا کیا ہوا دین وصول نہیں کیا۔کیونکہ بغیر اس کے حکم کے کفیل بنے تھے ۔
 ترجمہ  : ٢   ماتن کا قول٫ رجع بما ادی، کا مطلب یہ ہے کہ جتنے کا ضامن بنا تھا اتنا ہی ادا کیا تو اتنا وصول کرے گا ۔ لیکن اگر اس کے خلاف ادا کیا تو جتنے کا ضامن بنا تھا اتنا ہی وصول کرے گا،، اس لئے کہ ادا کرنے کے بعد کفیل قرض کا مالک بن گیا ، اور وہ اب قرض دینے والے کے درجے میں آگیا۔
قاعدہ  : یہاں پہلے تین باتیں یاد رکھیں ]١[ کفیل نے جب قرض ادا کیا تو گویا کہ اس نے اس قرض کو قرض دینے والیسے خرید لیا اور مالک بن گیا ، اس لئے جتنے کا ضامن بنا تھا اتنا مقروض سے وصول کریگا ، چاہے کفیل نے قرض دینے والے کو کم دیا ہو یا زیادہ ، چاہے اچھا درہم دیا ہو یا کھوٹا ۔]٢[ مقروض نے کفیل نہیں بنایا بلکہ قاصد بنا کر کہا کہ میرا قرض ادا کردو ، اب یہ قاصد اس قرض کا مالک نہیں بنا،اس لئے جتنا ادا کرے گا اتنا ہی مقروض سے وصول کرے گا ، کم کرے یا زیادہ ، اچھا کرے یا خراب ، بس وہی وصول کرے گا جیسا ادا کیا۔]٣[ تیسری بات یہ ہے کہ کفیل نے ایک ہزار کے بدلے پانچ سو صلح کرلیا ، یا پورے ہی معاف کر والیا، تو یہ مقروض کے اوپر سے معاف سمجھا جائے گا ، کفیل سے نہیں ، اس لئے اگر پانچ سو پر صلح کیا تو اب کفیل پانچ سو ہی مقروض سے وصول کرے گا ، اور اگر پورا ہی معاف کیا تو کفیل مقروض سے کچھ وصول نہیں کرے گا ۔ یہ تین باتیں یاد رکھنے کے بعد مسئلہ سمجھیں ،یہ ذرا پیچیدہ ہے ۔ 
تشریح  : متن میں رجع بما ادی کا مطلب یہ ہے کہ کفیل جتنی رقم کا ضامن بنا  تھا ، اور جس صفت کے ساتھ ضامن بنا تھا اتنی ہی ادا کیا ، اور اسی صفت کے ساتھ ادا کیا تو مقروض سے اتنی وصول کرے گا ۔ لیکن اس کے خلاف قرض دینے والے کو دیا، مثلا ایک ہزار اچھا درہم تھا اور کھوٹا دے دیا اور قرض دینے والے نے قبول بھی کر لیا ، یا نو سو دے دیا اور قرض دینے والے نے قبول کرلیا پھر بھی کفیل مقروض سے ایک ہزار اچھا درہم ہی وصول کرے گا۔
وجہ : رقم ادا کرنے کی وجہ سے کفیل اب قرض کا مالک بن گیا اس لئے وہی وصول کرے گا جس کا ضامن بنا تھا۔     
لغت  :  یہاں آسانی سے سمجھنے کے لئے ، یہ محاورہ استعمال کیا گیا ہے ۔کہ مقروض سے مراد مکفول عنہ ہے ۔ قرض دینے والے سے مراد مکفول لہ ہے ۔ اور رقم سے مراد مکفول بہ ہے۔     
 ترجمہ  : ٣  جیسے کفیل ہبہ کی وجہ سے  ، یا وراثت کی وجہ سے قرض کا مالک بن جائے ]تو پورا قرض وصول کرے گا [ 
تشریح  :  اس کے لئے تین مثالیں دے رہے ہیں ۔]١[ ایک ہزار کا کفیل بنا تھا ، پھر قرض دینے والے نے یہ ہزار کفیل کو 

Flag Counter