Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

339 - 515
 ۲؎ وجہ الظاہر وہو قولہما أن الشہادۃ قامت بمجہول لأن الید منقضیۃ وہي متنوعۃ إلی ملک وأمانۃ وضمان فتعذر القضاء بإعادۃ المجہول۳؎  بخلاف الملک لأنہ معلوم غیر مختلف۴؎  وبخلاف الآخذ لأنہ معلوم وحکمہ معلوم وہو وجوب الرد ۵؎ ولأن ید ذي الید معاین وید 

لغت : اخذ : اخذ کا ترجمہ لینا ہے ، لیکن یہاں غصب کرنا ہے ۔ 
ترجمہ  : ٢  ظاہر قول کی وجہ یہ ہے کہ ، اور یہی قول امام ابو حنیفہ  اور امام محمد  کی ہے کہ یہاں گواہی مجہول قبضے کی دی گئی ہے ، اس لئے کہ مدعی کا قبضہ تو ابھی ختم ہوگیا ہے ، اور وہ بھی کئی قسم کا ہوسکتا ہے  ]١[ ملک کا ۔]٢[ اور امانت کا  ]٣[ اور غصب کا قبضہ بھی ہوسکتا ہے اس لئے مجہول قبضے کی وجہ سے مدعی کی طرف واپس لوٹانا مشکل ہے ۔
 تشریح  : امام ابو حنیفہ اور امام محمد  کا قول یہ ہے کہ مدعی کا قبضہ پہلے تھا ، ابھی نہیں ہے ، اور وہ بھی مجہول ہے ] ابھی تو مدعی علیہ کا قبضہ ہے [، کیونکہ گواہ یہ نہیں بتا رہا ہے کہ کس قسم کا قبضہ تھا اس لئے یہ قبضہ اس کی ملکیت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے ، غصب کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے ، اور امانت کی وجہ سے بھی ہوسکتا ہے ، اور اگر امانت کی ، یا غصب کی وجہ سے ہو تو اس کی ملکیت ثابت نہیں ہوگی ، کیونکہ وہ زندہ ہے ، اس لئے مجہول قبضے کی وجہ سے اس کی ملکیت کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔
لغت : منقضیة : نقض سے مشتق ہے ، ختم ہوگیا ہے ۔ متنوعة :  نوع سے مشتق ہے ۔قبضہ کئی قسم کا ہوتا ہے ۔البتہ ملک ایک طرح کی ہوتی ہے ، چاہے خرید کر ہو ، چاہے امانت ، اور غصب کا ضمان ادا کرنے کے بعد ہوئی ہو۔باعادة المجہول ؛ مجہول قبضے کی وجہ سے مدعی علیہ کے قبضے سے واپس لوٹا کرکے مدعی کے قبضے میں دینا مشکل ہے ۔       
ترجمہ : ٣  بخلاف ملک کی گواہی ہو] تو فیصلہ کر دیاجائے گا [ اسلئے کہ ملکیت معلوم ہے اس میں کوئی اختلاف بھی نہیں ہے 
 تشریح : یہ امام ابو یوسف  کو جواب ہے ۔ انہوں کہا تھا کہ گواہ مدعی کی ملکیت کی گواہی دے تو قبول کی جاتی ہے ، تو اس کا جواب دیا رہا ہے کہ ملک کئی قسم کی نہیں ہوتی ، ہاں مالک بننے کے اسباب بہت ہوتے ہیں ، پس جب ملک کی گواہی دی تو اختلاف نہ ہونے کی وجہ سے قاضی مدعی کی ملکیت کا فیصلہ کرسکتا ہے ۔ 
ترجمہ :٤   بخلاف اخذ]غصب کرنے [ کی گواہی  کے اس لئے کہ اس کا معنی معلوم ہے ، اور اس کا حکم بھی معلوم ہے کہ مالک کی طرف واپس کرنا ہوگا ] اس لئے فیصلہ کرنا ممکن ہے [ 
 تشریح  : یہ بھی امام ابو یوسف  کو جواب ہے ، انہوں نے کہا تھا کہ اخز کی گواہی دے تو قبول کی جاتی ہے ، اسی طرح قبضے کی گواہی دے تو قبول کرنی چاہئے ۔ اس کا جوب یہ ہے کہ اخذ کا معنی کئی نہیں ہے ، ایک ہی ہے غصب کے طور پر لینا اور اس کا حکم بھی معلوم ہے کہ چیز واپس کرنی ہوگی ، اس لئے اس کا فیصلہ کرنا ممکن ہے ، اور قبضہ کئی قسم کا ہوتا ہے اس لئے اس کا فیصلہ کرنا ممکن 

Flag Counter