Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

334 - 515
 الصحیح۔ ۵؎ ثم قیل الاختلاف فیما إذا کانت المرأۃ ہي المدعیۃ وفیما إذا کان المدعي ہو الزوج إجماع علی أنہ لا تقبل لأن مقصودہا قد یکون المال ومقصودہ لیس إلا العقد۔۶؎  وقیل الاختلاف في الفصلین وہذا أصح والوجہ ما ذکرنا واللہ أعلم۔ 

تشریح  : امام ابو حنیفہ  کی دلیل یہ ہے کہ نکاح کے دعوی میں اصل عقد نکاح ہے ، جس سے عورت حلال ہوتی ہے شوہر کو ملک بضع حاصل ہوتی ہے ، اور ازدواجی رشتہ قائم ہوتا ہے ، اور مہر اس کے تابع ہے، اصل عقد میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ، صرف مہر کے بارے میں اختلاف ہے جو قرض کے درجے میں ہے اس لئے کم پر فیصلہ کردیا جائے گا۔  دوسری بات یہ ہے کہ عورت کم مال کا مثلا ایک ہزار کا دعوی کیا ہو ، یا زیادہ کا مثلا پندرہ سو کا دعوی کیا ہو ، دونوں صورتوں میں ایک ہزار کا فیصلہ کردیا جائے گا ۔ صحیح روایت یہی ہے ۔ 
ترجمہ : ٥  پھر کہا گیا ہے کہ یہ اختلاف اس صورت میں ہے کہ جب کی عورت مدعیہ ہو ، اور جس صورت میں شوہر مدعی ہو تو کوئی گواہی قبول نہیں کی جائے گی اس لئے کہ بیوی کا مقصد کبھی مال بھی ہوتا ہے ، اور شوہر کا مقصد تو عقد ہی ہے ۔ 
تشریح : عورت کا مقصد مہر کا مال بھی ہوسکتا ہے اور عقد بھی ہوسکتا ہے اس لئے یہ اختلاف ہوا کہ امام ابو حنیفہ  کے نزدیک مال مراد ہوگا ، اور صاحبین  کے نزدیک عقد نکاح مراد ہوگا ۔ لیکن اگرشوہر مدعی ہو تو اس کا مقصد عقد ہی ہوسکتا ہے اس لئے سبھی کا اتفاق ہے کہ گواہی قبول نہیں کی جائے گی ۔
ترجمہ  : ٦  کہا گیا کہ اختلاف دو نوں صورتوں میں ہے اور یہی صحیح ہے اور وجہ وہ ہے جو ہم نے ذکر کیا ۔
تشریح : بعض حضرات نے فرمایا کہ اختلاف دونوں صورتوں میں ہے ، یعنی عورت مدعیہ ہو تب بھی اور شوہر ہو تب بھی اختلاف ہے ، یعنی امام ابو حنیفہ  کے نزدیک دونوں صورتوں میں عقد نکاح مقصود ہے ، اور صاحبین کے نزدیک مہر مقصود ہے ۔ 

Flag Counter