مصرف الاستثناء لأن لہما یدا علی أنفسہما فیدفع ید الغیر عنہما فانعدم دلیل الملک۔ ۹؎ وعن أبي حنیفۃ رحمہ اللہ أنہ یحل لہ أن یشہد فیہما أیضا اعتبارا بالثیاب والفرق ما بیناہ واللہ أعلم۔
ترجمہ : ٨ اور اگر غلام اور باندے دونوں بڑے ہوں تو متن میں اسی کا استثناء کیا ہے اس لئے کہ دونوں کو اپنی ذات پر قبضہ ہے جو دوسرے کے قبضہ کو دفع کرتا ہے ، جو دوسرے کی ملکیت نہ ہونے کی دلیل ہے ۔
تشریح ؛ یہ تیسری صورت ہے ۔ گواہ کو یہ معلوم نہیں ہے کہ یہ غلام ہے یا آزاد ، اور دونوں اتنے بڑے ہیں کہ اپنی غلامیت اور آزادگی کے بارے میں بتا سکتے ہیں ، البتہ ان پر دوسرے کا قبضہ ہے تو یہ قبضہ غلام باندی بننے کے لئے کافی نہیں ہے اور گواہ کو اس کی گنجائش نہیں ہوگی کہ یہ قبضہ دیکھ کر غلامیت کی گواہی دے سکے ۔ یہی وہ تیسری صورت ہے جسکے بارے میں متن میں استثناء فرمایا اور فرمایا کہ سوائے بڑے غلام اور باندی کے ان پر قبضہ مالک ہونے کی دلیل نہیں ہے
وجہ : غلامیت کا پتہ نہیں ہے اور یہ بڑے بھی ہیں اس لئے ان کا قبضہ خود اپنی ذات پر ہے اس لئے دوسرے کا قبضہ غلامیت کی دلیل نہیں بن سکے گی ۔ پس اگر یہ کہے کہ میں آزاد ہوں تو اس کو آزاد ہی شمار کیا جائے گا ۔
ترجمہ : ٩ امام ابو حنیفہ کی ایک روایت یہ ہے کہ گواہ کے لئے یہ حلال ہے ان دونوں بڑے کے بارے میں بھی گواہی دے سکتا ہے ] کہ فلاں کی ملکیت ہے [کپڑے پر قیاس کرتے ہوئے ، لیکن دونوں کے درمیان فرق ہے جسکو ہم نے بیان کیا ۔ و اللہ اعلم
تشریح : امام ابو حنیفہ کی ایک دوسری روایت یہ ہے کہ بڑا آدمی ، یا بڑی عورت ہو اور کسی کے قبضے میں ہو تو گواہ کے لئے گنجائش ہے کہ اس کی ملکیت کی گواہی دے ۔جیسا کہ کپڑا کسی کے قبضے میں ہو تو اس کی گواہی دے سکتے ہیں کہ یہ اس کی ملکیت ہے
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں پہلی روایت صحیح ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ کپڑا ہر حال میں مملوک شیء ہے اس لئے کسی نہ کسی کی مملوک ہونا ہی ہے اس لئے جس کے قبضے میں اس کی گواہی دے سکتا ہے ، لیکن انسان آزاد پیدا ہوا ہے اس لئے اس کا مملوک ہونا ضروری نہیں ، اس لئے قبضے میں ہونا ملکیت کی دلیل نہیں ہے ۔ دوسری بات یہ ہے کہ کپڑا بول نہیں سکتا ، اور بڑا آدمی بول سکتا ہے اس لئے اس سے ہی پوچھ لیا جائے کہ مملوک ہے یا نہیں ۔ و الفرق ما بیناہ ، کا مطلب یہی ہے ۔و اللہ اعلم