Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

212 - 515
 البعض۔ (۴۷۱)قال وإذا کانت الدار في ید رجل وأقام الآخر البینۃ أن أباہ مات وترکہا میراثا بینہ وبین أخیہ فلان الغائب قضي لہ بالنصف وترک النصف الآخر في ید الذي ہي في یدہ ولا یستوثق منہ بکفیل وہذا عند أبي حنیفۃ۔ وقالا إن کان الذي ہي في یدہ جاحدا أخذ منہ وجعل في ید أمین وإن لم یجحد ترک في یدہ۱؎  لہما أن الجاحد خائن فلا یترک المال في یدہ بخلاف 

غلطی بھی کرتا ہے ، اور کبھی درست فیصلہ بھی کرتا ہے ، ایسا نہیں ہے کہ جیسا کہ بعض نے کہا کہ مجتہد ہمیشہ درست فیصلہ ہی کرتا ہے  
تشریح :  معتزلہ نے حنفیہ پر یہ الزام لگایا ہے کہ حنفیہ کا مسلک یہ ہے کہ مجتہد ہمیشہ درست فیصلہ ہی کرتا ہے ، لیکن متن کا جملہ٫ وھو ظلم ، سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کبھی غلط فیصلہ بھی کرتا ہے ۔ اس لئے معتزلہ کا یہ الزام صحیح نہیں ہے ۔
ترجمہ:  ( ٤٧١)  اگر گھر ایک آدمی کے قبضے میں ہو اور دوسرے نے گواہ قائم کیا کہ اس کا باپ مر گیا ہے اور یہ گھر اس کا اور اس کے بھائی کا میراث ہے جو غائب ہے ، تو حاضر کے لئے آدھے گھر کا فیصلہ کر دیا جائے گا اور باقی آدھا گھر اسی کے ہاتھ میں چھوڑ دیا جائے گا جسکے ہاتھ میں باپ نے چھوڑ رکھا تھا ، اور اس سے کفیل بھی نہیں لیا جائے گا ، یہ امام ابو حنیفہ  کا مسلک ہے ، اور صاحبین  نے فرمایا کہ جس کے ہاتھ میں گھر تھا اگر اس نے پہلے انکار کیا تھا تو اس سے گھر لے لیا جائے گا اور کسی امانت دار کے ہاتھ میں دے دیا جائے گا ، اور اگر اس نے انکار نہیں کیا تھا تو اسی کے ہاتھ میں چھوڑ دیا جائے گا ۔ 
اصول  : ]١[یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ جس کے پاس امانت کی چیز رکھی ہوئی ہے اگر وہ واقعی امانت دار ہے تو باقی مال اسی کے پاس رکھا جائے گا ۔ ]٢[ اور دوسرا اصول یہ ہے کہ گواہی کے ذریعہ حق ثابت کیا تو جو حاضر ہے اس کو اس کا حصہ دے دیا جائے گا ۔ 
تشریح  :مثلا زید مرا اور اس کا مکان عمر کے ہاتھ میں ہے ، زید کے بیٹے خالدنے گواہی سے ثابت کیا کہ اس گھر کا وارث میں ہوں اور اس کے آدھے کا وارث میرا بھائی ہے جو غائب ہے ، تو آدھا گھر خالد کو دے دیا جائے گا اور باقی آدھا عمر ]امین[ کے پاس ہی رہنے دیا جائے گا تاکہ جب دوسرا بیٹا آئے تو اس کو حوالہ کیاجائے ۔ اور اس کے لئے امین سے کفیل لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ، یہ امام ابو حنیفہ  کی رائے ہے ۔
وجہ : وہ فرماتے ہیں کہ قاضی کے فیصلے کے بعد عمر ]امین [ اب کچھ گڑ بڑ نہیں کر پائے گا اس لئے اس لئے چاہے وہ امانت دار نہ ہو تب بھی اسی کے پاس رکھا جائے گا ، اور معاملہ رکارڈ میں ہے اس لئے کفیل لینے کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔
صاحبین   کی رائے یہ ہے کہ عمر] امین [ نے پہلے گھر کے بارے میں انکار کیا پھرگواہ کے ذریعہ ثابت کیا گیا کہزید کا مکان عمر کے پاس ہے تو یہ امانت دار نہیں رہا اس لئے باقی آدھا گھر اس کے ہاتھ سے نکال کر کسی امانت دار کے پاس رکھ دیا جائے ۔اور 

Flag Counter