Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

200 - 515
 وقد أنکرہ فکان مناقضا بخلاف الدین لأنہ قد یقضی وإن کان باطلا علی ما مر۔ (۴۶۵)قال ذکر حق کتب في أسفلہ ومن قام بہذا الذکر الحق فہو ولي ما فیہ إن شاء اللہ تعالی أو کتب في شراء فعلی فلان خلاص ذلک وتسلیمہ إن شاء اللہ تعالی بطل الذکر کلہ وہذا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللہ۔ وقالا إن شاء اللہ تعالی ہو علی الخلاص وعلی من قام بذکر الحق۱؎  وقولہما 

تشریح  : متن میں گواہی قبول نہ کرنے کی وجہ یہ بیان کر رہے ہیں کہ جب کہا کہ مجھے عیب سے بری کردیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ میں نے باندی بیچی ہے ، اور پہلے انکار کر چکا ہے کہ نہیں بیچی ہے اس لئے بات میں تناقض ہوگیا ، اس لئے بات نہیں مانی جائے گی ۔ قرض کا معاملہ بالکل الگ ہے ، کیونکہ کبھی باطل قرض بھی ادا کرنا پڑتا ہے اس لئے وہاں کہے کہ تمہارا قرض نہیں ہے پھر کہے کہ ادا کردیا ہے تو بات میں توافق ہوسکتا ہے ۔               
 لغت  :  : یستدعی : دعی سے مشتق ہے ، چاہتا ہے ۔ اقتضاء : تقاضہ کرتا ہے۔
 ترجمہ  : ( ٤٦٥) لمبے حقوق کا ذکر کیا اورآخیر میں یہ لکھ دیا ٫و من قام بھذا الذکر فھو ولی ما فیہ ان شاء اللہ ۔ ترجمہ :جس کو یہ خط ملے تو جتنے حقوق ذکر کئے گئے ہیں ان سب کا وہ ولی ہے ان شاء اللہ ۔  یا خریدنے کے بارے میںلکھا ،پورا خط لکھ کر آخیر میں لکھا ۔ فعلی فلان خلاص ذالک و تسلیمہ ان شاء اللہ ، تو پورا خط ہی بیکار ہوجائے گا ، اور یہ بات امام ابو حنیفہ  کے یہاں ہے ، اور صاحبین  نے فرمایا کہ ، لفظ ، ان شاء اللہ کا خط کا آخری جملہ ' من قام بھذا الذکر فھو ولی ۔ اور ٫فعلی فلان خلاص ذالک و تسلیمہ [ کے ساتھ ہوگا ۔ 
لغت  : ان شاء اللہ ، کا مطلب سمجھیں ۔فقہ کے محاورے میں اس کو٫ استثناء ، کہتے ہیں ۔اس کا ترجمہ ہے اگر اللہ چاہے ،  ان شاء اللہ کا لفظ کسی جملے کے آخیر میں لکھ دیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ یہ ہونا ضروری نہیں ہے ، اللہ چاہے گا تو ہوگا اور نہیں چاہے گا تو نہیں ہوگا ۔ بلکہ یہ کہا جائے کہ یہ کام نہیں ہوگا ۔ طلاق کے بعد ان شاء اللہ ، کہہ دیا جائے تو طلاق واقع نہیں ہوگی  
اصول  : امام ابو حنیفہ   کا اصول یہ ہے کہ کئی جملے ہوں  اور ان کے درمیان حرف عطف ٫واو، یا ٫ف، ہو تو سب جملے ایک شمار کئے جائیں گے اور اس کے آخیر جملے کے بعد ان شاء اللہ ، ہو تو تمام جملے کنسل ہوجائیں گے ، اور بیکار ہوجائیں گے ، کیونکہ سب جملے گویا کہ ایک ہی ہیں اور سبھی کے ساتھ ان شاء اللہ کا تعلق ہوگیا ۔
اصول : صاحبین کا اصول یہ ہے کہ جملوں کے درمیان چاہے ٫واو، یا ٫ف، ہو تب بھی ان شاء اللہ کا تعلق صرف آخیر جملے کے ساتھ ہوگا اور وہ جملہ کنسل ہوگا ، اس سے پہلے  کے تمام  جملوں کے حقوق باقی رہیں گے ۔      
تشریح  : یہاں دو  مسئلے ذکر کئے ہیں ۔]١[ کسی نے ایک خط میں بہت سارے حقوق لکھے ، اور آخیر میں یہ جملہ لکھ دیا جس کو 

Flag Counter