وہو المدعو سجلا(۴۳۰) وإن شہدوا بہ بغیر حضرۃ الخصم لم یحکم۱؎ لأن القضاء علی
تشریح : مدعی علیہ مجلس قضا میں حاضر ہے ایسی صورت میں گواہی دی گئی تو گواہی پر حکم لگائے اور قاضی اپنا فیصلہ بھی لکھے گا۔فیصلہ لکھ دینے کو عربی میں ٫سجل، کہتے ہیں ۔۔
وجہ : کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فیصلہ تو یہاں لکھا گیا لیکن مدعی علیہ دوسرے شہر میں ہے اس لئے اس پر نافذ کرنے کے لئے دوسرے شہر کے قاضی کو خط لکھنا پڑتا ہے ۔
ترجمہ :(٤٣٠) اور اگر گواہی دی مدعی علیہ کی غیر موجودگی میں تو فیصلہ نہ کرے بلکہ گواہی لکھ لے تاکہ مکتوب الیہ قاضی اس کا فیصلہ کرے۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ غائب آدمی پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے ۔
تشریح : ایسی صورت ہے کہ گواہ حضرات ایک قاضی کے خطے میں ہیں اور مدعی علیہ دوسرے قاضی کے خطے میں ہے۔ اور دونوں کو جمع کرنا مشکل ہے ایسی صورت میں جس قاضی کے سامنے گواہ پیش ہوئے وہ قاضی گواہی لکھ لے۔لیکن فیصلہ نہ کرے کیونکہ مدعی علیہ غائب ہوتو فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اور یہ گواہی مکتوب الیہ قاضی کو بھیج دے تاکہ وہ فیصلہ کرے اور مدعی علیہ پر نافذ کرے۔
وجہ:(١) غائب مدعی علیہ پر فیصلہ کرنا جائز نہیں ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ مدعی علیہ کوئی ایسی بات کہے جس سے اس کے خلاف فیصلہ نہ ہوسکتا ہو۔ اس لئے مدعی علیہ یا اس کا وکیل حاضر ہو تب فیصلہ کرے(٢) حدیث میں ہے کہ حضرت علی کو فرمایا کہ مدعی علیہ کی بات سن لو پھر فیصلہ کیا کرو۔ عن علی قال بعثنی رسول اللہ ۖ الی الیمن قاضیا ... فقال ان اللہ سیھدی قلبک ویثبت لسانک فاذا جلس بین یدیک الخصمان فلا تقضین حتی تسمع من الآخر کما سمعت من الاول فانہ احری ان یتبین لک القضاء ۔(ابوداؤد شریف، باب کیف القضائ، ص ٥١٤، نمبر ٣٥٨٢ ترمذی شریف، باب ماجاء فی القاضی لا یقضی بین الخصمین حتی یسمع کلاھما ، ص ٣٢٢، نمبر ١٣٣١) اس حدیث میں ہے کہ دوسرے کی بات سنو تب فیصلہ کرو اور یہ اسی وقت ہو سکتا ہے کہ مدعی علیہ یا اس کا وکیل حاضر ہو (٣) اثر میں ہے۔ قال سمعت شریحا یقول لا یقضی علی غائب۔ (مصنف عبد الرزاق ، با لایقضی علی غائب، ج ثامن ، ص ٢٣٥، نمبر١٥٣٨٥) اس اثر سے معلوم ہوا کہ غائب پر فیصلہ نہ کرے۔ اس لئے صرف شہادت لکھ کر دوسرے قاضی کو بھیج دے تاکہ وہ فیصلہ کرے۔
فائدہ : امام بخاری فرماتے ہیں کہ مدعی علیہ کو حاضر کرنا مشکل ہو تو غائب مدعی علیہ کے خلاف بھی فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔یا