یجوز لأنہ کفل بما لا یقدر علی تسلیمہ ذ لا قدرة لہ علی نفس المکفول بہ بخلاف الکفالة بالمال لأن لہ ولایة علی مال نفسہ. ٢ ولنا قولہ علیہ الصلاة والسلام الزعیم غارم وہذا یفید
والاشعث لعبد اللہ بن مسعود فی المرتدین استتبھم وکفلھم فتابوا وکفلھم عشائر ھم وقال حماد اذا تکفل بنفس فمات فلا شیء علیہ۔ (بخاری شریف ، باب الکفالة فی القرض والدیون بالابدان وغیرھا ،ص ٣٦٥، نمبر ٢٢٩٠)ان دونوں اثر سے معلوم ہوا کہ کفالہ بالنفس لینا جائز ہے۔(٤) کفالہ بالمال جائز ہے اس کے لئے یہ حدیث ہے ۔عن سلمة بن اکوع قال کنا جلوسا عند النبی ۖ اذا اتی بجنازة ...... قال ھل ترک شیئا قالوا لا قال فھل علیہ دین ؟ قالوا ثلاثة دنانیر قال صلوا علی صاحبکم فقال ابو قتادة صل علیہ یا رسول اللہ و علی دینہ فصلی علیہ ۔(بخاری شریف ، باب اذا احال دین المیت علی رجل جاز،،کتاب الحوالات ،ص٣٦٥، نمبر٢٢٨٩) اس حدیث میں ہے کہ کوئی دوسرا آدمی مال کا کفیل بن سکتا ہے
ترجمہ : ١ امام شافعی نے فرمایا کہ کفالہ بالنفس جائز نہیں ہے اس لئے کہ دوسرے کو سپرد کرنے پر قدرت نہیں ہے ، اس لئے کہ جس کی کفالت لی ہے اس کی ذات پر قدرت نہیں ہے ، بخلاف مال کے اس لئے کہ اس کو اپنی ذاتی مال مال پر ولایت ہے ] اس لئے کفالہ بالمال جائز ہے [
تشریح : موسوعہ میں عبارت یہ ہے ۔ولا تلزم الکفالة بحد و لا بقصاص ولا عقوبة ، لاتلزم الکفالة الابالاموال ، و لو کفل لہ بما لزم رجلا فی جروح عمد فان اراد القصاص فالکفالة باطلة و ان اراد أرش الجروح فھو لہ و الکفالة لازمة لانھا کفالة بمال ۔ ( موسوعة امام شافعی ، باب الحوالة ، ج سابع، ص ٢٨٤، نمبر ١٠٥١٨) اس عبارت میں ہے کہ کفالہ بالنفس جائز نہیں ہے صرف کفالہ بالمال جائز ہے ۔
ترجمہ :٢ ہماری دلیل حضور علیہ السلام کا قول ہے الزعیم غارم ۔اور یہ حدیث کفالہ کے دونوں صورتوں کے مشروع ہونے کا فائدہ دیتی ہے ۔
تشریح : صاحب ہدایہ کی یہ حدیث پہلے گزر چکی ہے ۔ سمعت ابا امامة قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول ... ثم قال العاریة مؤداة والمنحة مردودة والدین مقضی والزعیم غارم (ابو داؤد شریف، باب فی تضمین العاریة ،ص ٥١٢، نمبر ٣٥٦٥ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی ان العاریة موداة ،ص٣٠٨، نمبر ١٢٦٥) اس حدیث الزعیم غارم ہے جس سے پتہ لگتا ہے کہ کفالہ بالمال بھی جائز ہے اور کفالہ بالنفس بھی جائز ہے۔
ترجمہ : ٣ اور اس لئے کہ جس طرح آدمی کو سپرد کیا جاتا ہے اس طرح سپرد کرے ، مثلا مطالبہ کرنے والے کو مجرم کی جگہ بتا