Deobandi Books

اثمار الہدایہ شرح اردو ہدایہ جلد 9

13 - 515
فی المطالبة وقیل ف الدین والأول أصح. (٣١٦)قال الکفالة ضربان کفالة بالنفس وکفالة بالمال. فالکفالة بالنفس جائزة والمضمون بہا حضار المکفول بہ١  وقال الشافع رحمہ اللہ لا 

تشریح  : کفالہ کا لغوی ترجمہ ہے ملانا ، اور محاوری  ترجمہ دو ہیں ]١[ مطالبے میں ایک کے ذمے کو دوسرے کے ذمے کے ساتھ ملانا ،]٢[ دوسرا ترجمہ ہے قرض میں ایک کے ذمے کو دوسرے کے ذمے کے ساتھ ملانا ، لیکن پہلا ترجمہ صحیح ہے کیونکہ قرض ایک ہی ہے البتہ مطالبہ دو پر آجاتا ہے ۔   
ترجمہ :(٣١٦)کفالہ کی دو قسمیں ہیں،کفالہ بالنفس اور کفالہ بالمال۔ پس کفالہ بالنفس جائز ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جس آدمی کا کفالہ لیا ہے اس کو مجلس قضا میں حاضر کرے۔ 
تشریح : کفالت کی دو قسمیں ہیں۔کفالہ بالنفس اور کفالہ بالمال۔کفالہ بالنفس کا مطلب یہ ہے کہ فلاں آدمی مجلس قضاء میں مقدمہ کے لئے مطلوب ہے اس کو ابھی چھوڑ دیں،میں اس کو وقت مقررہ پر مجلس قضاء میں حاضر کرنے کا ذمہ دار ہوں۔اس کو کفالہ بالنفس کہتے ہیں ۔کیونکہ ذات اور نفس حاضر کرنے کا کفیل بنا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سزا نہیں بھگتے گا تو میں اس کے بدلے سزا بھگت لوں گا۔ 
دوسرا ہے کفالہ بالمال : اس کا مطلب یہ ہے کہ فلاں آدمی پر اتنا قرض ہے اس کو ادا کرنے کامیں کفیل اور ذمہ دار ہوں ،وہ ادا نہیں کرے گا تو میں اس قرض کو ادا کردوںگا۔اس کو کفالہ بالمال کہتے ہیں۔کیونکہ مال ادا کرنے کی ذمہ داری لے رہا ہے۔  
وجہ:(١)  کفالہ بالنفس جائز ہے اس کی دلیل یہ حدیث ہے جسکو صاحب ہدایہ نے ذکر کیا ہے۔ سمعت ابا امامة قال سمعت رسول اللہ ۖ یقول ... ثم قال العاریة مؤداة والمنحة مردودة والدین مقضی والزعیم غارم  (ابو داؤد شریف، باب فی تضمین العاریة ،ص ٥١٢، نمبر ٣٥٦٥ ترمذی شریف ، باب ماجاء فی ان العاریة موداة ،ص٣٠٨، نمبر ١٢٦٥) اس حدیث میں الزعیم غارم ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کفیل ذمہ دار ہے۔اور اس میں دونوں قسم کے کفیل شامل ہو سکتے ہیں،کفیل بالنفس بھی اور کفیل بالمال بھی۔اس سے کفالہ بالنفس کا ثبوت ہوا (٢) اس حدیث میں اس کی صراحت ہے ۔عن ابی ھریرة ان النبی  ۖ حبس رجلا فی تہمة و قال مرة اخری أخذ من متہم کفیلا تثبیتا و احتیاطا۔ ( سنن بیہقی ، باب ما جاء فی کفالة ببدن من علیہ حق ، ج سادس ، ص ١٢٧، نمبر ١١٤١٤)، اس حدیث میں کفالہ بانفس لیا ہے ۔ (٣)قول صحابی میں اس کا ثبوت ہے کہ حضرت حمزہ نے مجرم کے لئے کفالہ بالنفس لیا تھا۔ حمزة بن عمرو الاسلمی عن ابیہ ان عمر بعثہ مصدقا فوقع رجل علی جاریة امرأتہ فاخذ حمزة من الرجل کفلاء حتی قدم علی عمر وکان عمر قد جلدہ مأة جلدة فصدقھم وعذرھم بالجھالة۔اسی اثر کے دوسرے حصے میں ہے۔وقال جریر 

Flag Counter