ذلک ولأن فیہ تہمة.(٤١٨) قال وذا حضرا سوی بینہما ف الجلوس والقبال ١ لقولہ علیہ الصلاة والسلام ذا ابتل أحدکم بالقضاء فلیسو بینہم ف المجلس والشارة والنظر(٤١٩) ولا یسار أحدہما ولا یشیر لیہ ولا یلقنہ حجة للتہمة ١ ولأن فیہ مکسرة لقلب الآخر فیترک
اللہ بن الزبیر قال: قضی رسول اللہ ۖ ان الخصمین یقعد ان بین یدی الحکم (ابو داؤد شریف، باب کیف یجلس بین یدی القاضی،ص٥١٥،نمبر ٣٥٨٨) اس حدیث میں ہے کہ دونوں خصموں کو برابر بٹھائے جس سے معلوم ہوا کہ کسی ایک کو ترجیح نہ دے (٤) حدیث میں ہے جسکو صاحب ہدایہ نے ذکر کیا ہے ۔ عن الحسن قال نزل علی علی رجل وھو بالکوفة ثم قدم خصما لہ فقال لہ علی اخصم انت؟ قال نعم ،قال فتحول فان رسول اللہ ۖ نھانا ان نضیف الخصم الا وخصمہ معہ (سنن للبیہقی، باب لاینبغی للقاضی ان یضیف الخصم الا وخصمہ معہ ، ج عاشر، ص ٢٣٢، نمبر ٢٠٤٧٠ مصنف عبد الرزاق ، باب عدل القاضی فی مجلسہ ، ج ثامن ، ص ٢٣٢، نمبر ١٥٣٧٠) اس حدیث میں صاف ہے کہ ایک خصم کی دعوت نہ کرے۔
ترجمہ : (٤١٨) پس جب دونوں حاضر ہوں تو برابری کرے بیٹھنے میں ،متوجہ کرنے میں
ترجمہ : ١ حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے کہ تم میں سے کوئی ایک قاضی ہونے میں مبتلا ہو تو مجلس میں سب کو برابر رکھے ، اور اشارہ کرنے میں اور دیکھنے میں بھی برابر رکھے ۔
وجہ : (١)صاحب ہدایہ کی حدیث یہ ہے ۔ عن عبد اللہ بن الزبیر قال: قضی رسول اللہ ۖ ان الخصمین یقعد ان بین یدی الحکم (ابو داؤد شریف، باب کیف یجلس بین یدی القاضی،ص٥١٥،نمبر ٣٥٨٨) اس حدیث میں ہے کہ دونوں خصموں کو برابر بٹھائے جس سے معلوم ہوا کہ کسی ایک کو ترجیح نہ دے۔
لغت : یسوی : سوی سے مشتق ہے برابر رکھنا ۔ النظر : دیکھنا ۔
ترجمہ : (٤١٩) اور سر گوشی نہ کرے کسی ایک سے اور نہ اس کی طرف اشارہ کرے، نہ کوئی حجت سکھائے۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ اس میں دوسرے کا دل ٹوٹے گا ، اور اس کا حق چھوٹ جائے گا ۔
تشریح: دونوں مدعی اور مدعی علیہ قاضی کے پاس حاضر ہوں تو قاضی کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے محسوس ہو کہ یہ کسی ایک کی طرف مائل ہے۔ اس لئے دونوں کو برابر درجے میں بٹھائے۔ دونوں کی طرف برابر درجے میں متوجہ ہو۔ کسی ایک سے چپکے چپکے بات نہ کرے۔ کسی ایک کی طرف اشارہ نہ کرے۔ کسی ایک کو بچنے کی دلیل نہ بتائے۔
وجہ :(١)کیونکہ اس طرح انصاف کا تقاضا پورا نہیں ہو سکے گا(٢) ۔ عن ام سلمة قالت قال رسول اللہ ۖ من