بینہا وبین خصمہا کما ذا کانت الخصومة ف الدابة.٧ ولو جلس ف دارہ لا بأس بہ ویأذن للناس بالدخول فیہا ٨ ویجلس معہ من کان یجلس قبل ذلک لأن ف جلوسہ وحدہ تہمة.
عورت کو مسجد کے اندر جانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ، اس کی ایک مثال پیش کرتے ہیں کہ جانور کا مسئلہ ہو تو وہ مسجد کے اندر نہیں جائے گا ، لیکن اس کے لئے خود قاضی باہر آجائے گا ، یا دوسرے کو بھیجے گا ، اسی طرح حائضہ عورت کے بارے میں ہوگا ۔
ترجمہ : ٧ اور اگر قاضی فیصلے کے لئے اپنے گھر میں بیٹھا تو کوئی حرج کی بات نہیں ہے لیکن لوگوں کو گھر میں داخل ہونے کی عام اجازت دے دے ۔
تشریح : واضح ہے ۔
وجہ :(١)حدثنا انس بن مالک قال بینما و النبی خارجان من المسجد فلقینا رجل عند سدة المسجد فقال یارسول اللہ متی الساعة ؟ قال النبی ۖ ما عددت لھا ؟ فکان الرجل استکان ثم قال یا رسول اللہ ما اعددت لھا کبیر صیام و لا صلاة و لا صدقة و لکنی احب اللہ و رسولہ قال انت مع من احببت ۔ ( بخاری شریف ، باب القضا و الفتیا فی الطریق : ص ١٢٣١، نمبر ٥٣ ٧١ ) اس حدیث میں ہے کہ دروازے اور راستے میں فتوی دیا جا سکتا ہے ۔ (٢) و قضی یحی بن یعمر فی الطریق و قضی الشعبی علی باب دارہ ۔ ( بخاری شریف ، باب القضا و الفتیا فی الطریق : ص ١٢٣١، نمبر ٥٣ ٧١ ) اس قول تابعی میں ہے کہ دروازے اور راستے میں فتوی دیا جا سکتا ہے ۔
ترجمہ : ٨ اور قاضی کے ساتھ وہ لوگ بیٹھ سکتے ہیں جو پہلے بیٹھا کرتے تھے ، کیونکہ اس میں کوئی تہمت نہیں ہے ۔
تشریح : قاضی بننے سے پہلے جو لوگ بیٹھا کرتے تھے وہ لوگ قاضی بننے کے بعد بھی ب بیٹھ سکتے ہیں ، بلکہ بہتر یہ ہے کہ فیصلے کے وقت چند اہل علم قاضی کے ساتھ بیٹھے تاکہ اس پر رشوت لینے کی تہمت نہ لگے اور مشورہ کے ساتھ صحیح فیصلہ کر سکے ، اسی لئے برطانیہ میں اہل علم کی ایک جماعت ہوتی ہے جنکے مشورے سے فیصلے کرتے ہیں اور واقعی انصاف کا فیصلہ کرتے ہیں ] اس کو جوری ، کہتے ہیں ۔ مجھے خود اس کا تجربہ ہوا ہے ۔
وجہ : اس قول تابعی میں ہے کہ قاضی اہل علم کے ساتھ مشورہ کرنے والا ہو ۔قال عمر بن عبد العزیز لا ینبغی ان یکون قاضیا حتی تکون فیہ خمس آیتھن اخطاتہ کانت فیہ خللا،یکون عالما بما کان قبلہ، مستشیرا لاھل العلم ملغیا للرثغ یعنی الطمع، حلیما عن الخصم، محتملا للائمة ( مصنف عبد الرزاق، باب کیف ینبغی للقاضی ان یکون، ج ثامن ، ص٢٣١، نمبر ١٥٣٦٥) اس قول تابعی میں ہے کہ اہل علم سے مشورہ کرنے والا ہو۔