فیصح قرار القاض کأنہ ف یدہ ف الحال٢ لا ذا بدأ بالقرار لغیرہ ثم أقر بتسلیم القاض فیسلم ما ف یدہ لی المقر لہ الأول لسبق حقہ ویضمن قیمتہ للقاض بقرارہ الثان ویسلم لی المقر لہ من جہة القاض . (٤١٤)قال ویجلس للحکم جلوسا ظاہرا ف المسجد ١ ک لا یشتبہ مکانہ علی الغرباء وبعض المقیمین والمسجد الجامع أولی لأنہ أشہر.٢ وقال الشافع
جو کچھ ہے وہ پہلے والے کے لئے ہوگا ، اس لئے کہ اس کا حق پہلے ہوگیا ، اور قاضی کے اقرار کرنے کی وجہ سے دوسرے والے کے لئے اس کی قیمت کا ضامن ہوگا اور قاضی کی جانب سے دوسرے والے کو قیمت دی جائے گی ۔
تشریح : یہاں الگ الگ دو آدمیوں کے لئے اقرار ہے ، ]١[ جس آدمی کے ہاتھ میں امانت ہے وہ مثلا زید کے لئے اقرار کرتا ہے ، بعد میں معزول قاضی خالد کے لئے اقرار کرتا ہے ، تو چونکہ زید کے لئے اقرار پہلے ہے اس لئے یہ چیز زید کو ملے گی ، اور معزول قاضی کا اقرار بعد میں ہے اس لئے بعد والے کی اس کی قیمت دلوائی جائے گی ، اور اگر وہ مثلی چیز ہے ، مثلا گیہوں ہے تو گیہوں دلوا دی جائے گی ۔
ترجمہ : (٤١٤)اور فیصلے کے لئے عام طور پر مسجد میں بیٹھے۔
ترجمہ : ١ تاکہ آنے والے اجنبی آدمی پر قاضی مشتبہ نہ ہوجائے ، اور بعض مقیم آدمی کو بھی پتہ نہ چلے ، اور جامع مسجد اس کے لئے بہتر ہے اس لئے کہ وہ زیادہ مشہور ہے ۔
تشریح : حاکم مسجد میں ایسی ظاہری جگہ پر فیصلے کے لئے بیٹھے جس سے ہر آنے والے کو پتا چل جائے کہ یہ قاضی صاحب بیٹھے ہیں۔ اور وہاں ہر شخص آسانی سے آسکے۔
وجہ :(١)حضورۖ نے زنا کا فیصلہ مسجد میں کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوا کہ فیصلے کیلئے مسجد میں بیٹھ سکتا ہے۔ حدیث یہ ہے۔ عن ابی ھریرة قال: اتی رجل رسول اللہ ۖ وھو فی المسجد فناداہ فقال : یا رسول اللہ ! انی زنیت فاعرض عنہ الخ (بخاری شریف، باب من حکم فی المسجد الخ ،ص ١٢٣٤، نمبر ٧١٦٧ مسلم شریف، باب من اعترف علی نفسہ بالزنی ،ص ٧٥٠ ،نمبر ٤٤٢٠١٦٩٢) (٢) دوسری حدیث میں ہے۔ عن سھل اخی بنی ساعدة ان رجلا من الانصار جاء الی النبی ۖ فقال ارأیت رجلا وجد مع امرأتہ رجلا ایقتلہ ؟ فتلاعنا فی المسجد وانا شاھد ۔ (بخاری شریف، باب من قضی ولاعن فی المسجد،ص١٢٣٤، نمبر ٧١٦٦) ان احادیث سے معلوم ہوا کہ مسجد میں فیصلہ کرسکتا ہے
ترجمہ : ٢ امام شافعی نے فرمایا کہ فیصلے کے لئے مسجد میں بیٹھنا مکروہ ہے اس لئے کہ مشرک بھی حاضر ہوگا اور وہ ناپاک ہے ، اور حیض والی بھی حاضر ہوگی اور اس کا مسجد میں داخل ہونا ممنوع ہے ۔