فالصحیح أن أہلیة الاجتہاد شرط الأولویة. فأما تقلید الجاہل فصحیح عندنا٩ خلافا للشافع رحمہ اللہ وہو یقول ن الأمر بالقضاء یستدع القدرة علیہ ولا قدرة دون العلم.١٠ ولنا أنہ یمکنہ أن یقض بفتوی غیرہ ومقصود القضاء یحصل بہ وہو یصال الحق لی مستحقہ. ١١ وینبغ للمقلد أن یختار من ہو الأقدر والأولی لقولہ علیہ الصلاة والسلام من قلد نسانا عملا
وجہ : اس حدیث میں ہے کہ قضا کو اتنا نہیں جانتے تھے پھر بھی حضور ۖ نے قاضی بنایا۔عن علی قال بعثنی رسول اللہ ۖ الی الیمن قاضیا فقلت یا رسول اللہ ۖ ترسلنی وانا حدیث السن ولا علم لی بالقضاء فقال ان اللہ سیھدی قلبک الخ (ابو داؤد شریف، باب کیف القاضاء ، ص٥١٤، نمبر ٣٥٨٢)
ترجمہ : ٩ خلاف امام شافعی کے وہ فرماتے ہیں کہ فیصلے کرنے کا معاملہ یہ چاہتا ہے کہ اجتہاد کرنے کی قدرت ہو ، اور بغیر علم کے قدرت نہیں ہوتی ]اس لئے اس کو قاضی بنانا صحیح نہیں ہے ۔
وجہ : انکی دلیل یہ حدیث ہے ۔عن اناس من اھل حمص من اصحاب معاذ بن جبل ان رسول اللہ ۖ لما اراد ان یبعث معاذا الی الیمن قال کیف تقضی اذا عرض لک قضاء ؟ قال اقضی بکتاب اللہ ،قال فان لم تجد فی کتاب اللہ ؟ قال فبسنة رسول اللہ،قال فان لم تجد فی سنة رسول اللہ ولا فی کتاب اللہ ؟ قال اجتھد برایی ولا الو،فضرب رسول اللہ ۖ صدرہ فقال الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ لما یرضی رسول اللہ ۔ (ابو داؤد شریف، باب اجتہاد الرای فی القضاء ،ص٥١٦،نمبر ٣٥٩٢) اس حدیث میں اشارہ ہے کہ قاضی میں صفت اجتہاد ہو۔
ترجمہ : ١٠ ہماری دلیل یہ ہے کہ یہ ممکن ہے کہ دوسرے کے فتوے سے فیصلہ کرے اور اس سے قضا کا مقصد حاصل کرلے اور وہ ہے مستحق تک حق پہونچانا۔
تشریح : غیر مجتہد کو قاضی بنانا ہمارے نزدیک جائز ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ آدمی دوسرے کے فتوے سے استفادہ کرکے مستحق کو اس کا حق پہونچا سکتا ہے جو اصل مقصد ہے اس لئے اس کو قاضی بنانا جائز ہے ، اگر چہ بہتر نہیں ہے ۔
ترجمہ : ١١ قاضی بنانے والے کے لئے مناسب ہے کہ جو زیادہ قدرت رکھنے والا ہو اور علم اور دین کے اعتبار سے بہتر ہو اس کو قاضی بنائے ، حضور علیہ السلام کے قول کی وجہ سے جس نے ایسے آدمی کو عمل دیا ، حالانکہ اس کی رعیت میں اس سے بہتر ہے تو اس نے اللہ ، اس کے رسول اور جماعت مسلمین کی خیانت کی ۔
تشریح : واضح ہے۔