مستعملة ف الوکالة فیکون القول قولہ مع یمینہ. (٤٠٢)قال ومن أودع رجلا ألف درہم وأحال بہا علیہ آخر فہو جائز لأنہ أقدر علی القضاء فن ہلکت برٔ١ لتقیدہا بہا فنہ ما التزم
محتال علیہ سے وصول کرکے مجھے دیں۔اور محتال کہتا ہے کہ میرا آپ پر قرض تھا جس کی وجہ سے آپ نے حوالہ کیا اس لئے میں وصول کیا ہوا قرض آپ کو نہیں دوں گا۔تو بات محیل کی مانی جائے گی قسم کے ساتھ۔
وجہ :(١) حوالہ کرنے سے ضروری نہیں ہے کہ محتال لہ]قرض دینے والے[ کا محیل]مقروض [ پر قرض ہو، ہو سکتا ہے کہ محتال علیہ نے قرض وصول کرنے کے لئے حوالہ بول کر محتال لہ کو وکیل بنایا ہو تاکہ وہ وکالت کے طور پر محتال علیہ سے رقم وصول کرکے محیل کو دے۔ اس لئے محیل کی بات مانی جائے گی (٢) محتال لہ محیل پر قرض کا دعوی کر رہا ہے اور اس کے پاس اس پر بینہ نہیں ہے اور محیل اس کا منکر ہے اس لئے قسم کے ساتھ اس کی بات مانی جائے گی۔
ترجمہ : ٢ اور لفظ حوالہ ، وکیل بنانے ، کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اس لئے محیل ] مقروض [ کی بات قسم کے ساتھ مانی جائے گی
تشریح : یہ دوسری دلیل ہے کہ یہاں مقروض ] محیل[ حوالہ بول کر یہ مراد لی ہے کہ میں تمکو قرض وصول کرنے کا وکیل بناتا ہوں ، اس لئے قسم کے ساتھ محیل کی بات مانی جائے گی ۔
ترجمہ :( ٤٠٢) کسی نے ایک ہزار درہم کفیل کے پاس امانت رکھا ، پھر دوسرے سے کہا کہ کفیل سے ایک ہزار لے لو تو یہ جائز ہے کیونکہ کفیل ایک ہزار ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے ، لیکن یہ امانت کا ایک ہزار ہلاک ہوگیا تو حوالہ ختم ہوگیا ، اور کفیل بری ہوگیا ۔
ترجمہ : ١ اس لئے کہ وہی ایک ہزار رقم دینی تھی ، اور کفیل نے اسی سے دینے کا التزام کیا تھا ۔] اور وہ نہیں رہا تو حوالہ ختم ہوجائے گا۔ یہاں بری کا ترجمہ یہی ہے [
نکتہ : یہاں چار نکتے بیان کررہے ہیں انکو سمجھیں تو مسئلہ سمجھ میں آئے گا ]١[ پہلا ۔مقروض نے کفیل ]محتال علیہ [ کو رقم دی اور کہا کہ وہی رقم قرض دینے والے کو ادا کرنا ہے ، پس اگر یہ متعین رقم ہلاک ہوجائے تو حوالہ ختم ہوجائے گا، ہاں کفیل پر اس کا خلیفہ یعنی قیمت لازم ہوتی ہو تو حوالہ ختم نہیں ہوگا ]٢[ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگر کفیل کو کوئی متعین رقم دینے کے لئے نہیں کہا تو اس رقم کے ہلاک ہونے سے حوالہ ختم نہیں ہوگا ، کیونکہ کوئی اور رقم اپنی طرف سے ادا کردے گا۔]٣[ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ یہ رقم اب مقروض کفیل سے واپس نہیں لے سکتا ، کیونکہ اس کے ساتھ قرض دینے والے کا حق متعلق ہوچکا ہے۔]٤[ اور چوتھا نکتہ یہ ہے کفیل کے پاس یہ رقم ، کبھی امانت کی ہوتی ہے ، کبھی غصب کی ہوتی ہے ، اور کبھی قرض دی ہوئی ہوتی ہے ۔